نمائندہ امت :
تحریک انصاف کے صدر پرویز الٰہی کو اٹک جیل منتقل کردیا گیا ہے۔ اڈیالہ جیل میں سپرنٹنڈنٹ جیل کی کرم نوازیوں کا سلسلہ اس لیے رکا کہ گزشتہ روز جوڈیشل ریمانڈ پر موجود ایک قیدی کی ہلاکت ہوگئی۔ ہلاک ہونے والے قیدی کا تعلق مبینہ طور پر تحریک انصاف سے بتایا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ روز آئی جی محکمہ جیل خانہ جات کے حکم پر اڈیالہ جیل میں ایک درخت کو کاٹنے کا کہا گیا، اس پر جوڈیشل ریمانڈ پر لائے گئے ایک قیدی کو درخت پر چڑھا دیا گیا، کٹائی کی دوران واپڈا کی ہیوی الیکڑک ٹرانسمیشن لائنز سے اس قیدی کا سر ٹکرا گیا، جس کی وجہ سے اسے بجلی کا زوردار جھٹکا لگا اور وہ درخت سے نیچے آ گرا، قیدی موقع پر ہی ہلاک ہوگیا، لیکن سپرٹنڈنٹ جیل نے دکھاوے کی خاطر اسے آکسیجن لگا کر اسپتال روانہ کردیا، جہاں اس کی موت کی تصدیق کردی گئی۔
دوسری جانب اسی سپرٹنڈنٹ جیل کی پرویز الٰہی کی نوازشات کی خبریں بھی پنجاب حکومت تک پہنچ رہی تھی، جس کی بنیاد پر پرویز الٰہی کو اٹک جیل منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ ذرائع اسلام آباد پولیس کے مطابق پرویز الٰہی کو تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم لاہور سے گرفتار سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو سخت سیکورٹی حصار میں اٹک جیل منتقل کردیا گیا ہے۔
اڈیالہ جیل اور اسلام آباد پولیس کے ذرائع نے امت کو بتایاکہ ’’ اڈیالہ جیل میں گزشتہ روز ایک جوڈیشل ریمانڈ پر موجود مبینہ طور پر تحریک انصاف کے قیدی کی موت کے بعد محکمہ جیل خانہ جات کے بڑے افسران اور ڈسٹرکٹ پنڈی کے ججز نے پورا دن اڈیالہ جیل میں گزارا، اور قیدی کی موت کی تحقیقات کرتے رہے۔
اڈیالہ جیل کے دورے کے دوران آئی جی جیل خانہ جات نے جیل میں ایک بڑے درخت کو کاٹنے کے احکامات جاری کیے تھے، جس پر سپرٹنڈنٹ جیل نے درخت کاٹنے کے ماہر کو بلانے کے بجائے بیرک نمبر ایک میں موجود جوڈیشل ریمانڈ پر لائے گئے قیدی کو بلا لیا۔
قیدی کا نام معلوم نہیں ہوسکا، لیکن جو حیران کن بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ قیدی شناخت پریڈ کے لیے جوڈیشل ریمانڈ پر تھا، جس کے لیے قانون بہت سخت ہے کہ اسے کوئی بھی بیرک سے باہر نہیں نکال سکتا کہ کہیں وہ اپنا حلیہ تبدیل نہ کرلے۔ اس کے باوجود اسے بیرک سے باہر نکال کر درخت کاٹنے کا ٹاسک دیا گیا اور درخت پر چڑھایا گیا، اسی درخت کے ساتھ واپڈا کی ہیوی ٹرانسمیشن تاریں گزر رہی تھی، قیدی کا سر ان تاروں سے ٹکرا گیا، جسے بجلی کا ایک زور دار جھٹکا لگا اور کئی فٹ اونچے اونچائی سر کے بل نیچے آپڑا، اور موقع پر ہی دم توڑ گیا، اسے فوری طور پر جیل ڈاکٹر نے چیک کیا، اور سپرٹنڈنٹ جیل کو بتا دیا کہ اس کی موت واقع ہوچکی ہے، لیکن جیل سپرٹنڈنٹ نے اس کے باوجود اس مردہ شخص کو آکسیجن لگوا کر ایمبولینس میں پنڈی شہر کے بڑے اسپتال منتقل کردیا، جہاں اس کی موت کی تصدیق کردی گئی۔
اس خبر کو دبانے کے لیے ہر قسم کے ذرائع استعمال کیے گئے، اور یہ خبر مین اسٹریم میڈیا تک نہیں پہنچ سکی۔ گزشتہ روز ڈسٹرکٹ پنڈی کے تمام ججز اور محکمہ جیل خانہ جات کے اعلیٰ افسران جیل میں اس کیس کی تحقیق کرتے رہے۔ سپرنٹنڈنٹ جیل جو کہ مونس الٰہی کی سفارش پر پرویز الہٰی کے دور میں اڈیالہ جیل تعینات ہوا تھا، اس نے اس کیس کو فی الحال دبا دیا ہے، کیونکہ پرویز الٰہی کے معاملے پر بھی حکومت پنجاب کا فوکس سپرنٹنڈنٹ جیل پر تھا، لیکن طاقتور جیل سپرنٹنڈنٹ اس کے باوجود کہ پروموٹ ہوکر ڈی آئی جی بن چکا ہے ابھی تک اڈیالہ جیل صرف چوہدری پرویز الٰہی کے لیے موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ اسلام آباد پولیس نے پرویز الٰہی کو اڈیالہ کے بجائے اٹک جیل بھجوادیا‘‘۔
پولیس ذرائع کے مطابق بظاہر تو ایس ایس پی اسپیشل برانچ اور آئی بی نے نظربند کرنے کی سفارش کی تھی کہ پرویز الٰہی پی ٹی آئی پنجاب کے صدر ہیں اور بدامنی پیدا کرنے میں ملوث رہے ہیں اس تناظر میں پرویز الٰہی امن وامان کو مزید بگاڑ سکتے ہیں۔ چنانچہ ایم پی او آرڈر کے مطابق پرویز الٰہی سے کارکنان کو اشتعال دلانے کی صورت میں عوامی املاک کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
ماضی میں بھی پرویز الٰہی نے پی ٹی آئی کے کارکنان کو قانون ہاتھ میں لینے پر اُکسایا تھا، انہوں نے پی ٹی آئی کارکنان کو اسلام آباد میں سرکاری، نجی املاک کو نقصان پہنچانے پر بھی اُکسایا اور پرویز الٰہی ان عمارتوں کو نقصان پہنچانے پر بھی اکساتے رہے جو ریاست کی علامت ہیں۔ اس لیے انہیں پندرہ دن کے لیے نظر بند کیا جائے۔ اس مرتبہ حکومت نے پرویز الٰہی کو اڈیالہ کے بجائے اٹک بھجوایا، تاکہ اڈیالہ میں جو عیاشی وہ سپرنٹنڈنٹ جیل کے دم پر کر رہے تھے اور انہیں جیل میں ہر قسم کی سہولت دی گئی تھی، وہ ختم کی جائے۔ اس پر مستزاد ایک قیدی کی موت نے سپرنٹنڈنٹ کے لیے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں، چنانچہ پرویز الٰہی کو اٹک میں رکھنا ہی بہتر سمجھا گیا، لیکن اڈیالہ جیل سپرٹنڈنٹ کو نہ جانے کس دباؤ اور طاقت کی وجہ سے نہیں چھیڑا جارہا ہے، یہ بات کافی حیران کن ہے۔‘‘