امت رپورٹ:
عمران خان اور ان کی بچی کھچی پی ٹی آئی کے ساتھ مفاہمت یا پس پردہ ڈیل کی کوششوں سے متعلق کوئی سرگرمی نہیں ہو رہی ہے۔ باخبر ذرائع نے اس حوالے سے زیر گردش مبینہ خبروں اور تبصروں کو رد کیا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ اس نوعیت کی مفاہمت کے دور دور تک آثار نہیں ہیں۔ بلکہ زیادہ امکان یہ ہے کہ عام انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی پر پابندی لگ جائے۔ جبکہ جنرل الیکشن کے موقع پر بھی عمران خان کی نا اہلی برقرار رہنا بظاہر پکا دکھائی دے رہا ہے۔
واضح رہے کہ عمران خان اور بچی کھچی پی ٹی آئی کے ساتھ پس پردہ مفاہمت کی کوششوں سے متعلق تبصروں نے اس وقت زور پکڑا۔ جب سابق وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے ایوان صدر میں صدر عارف علوی سے ملاقات کی۔ اگرچہ انہوں نے اس ملاقات کے اغراض و مقاصد پر میڈیا سے بات نہیں کی۔ تاہم انفرادی طور پر بعض تجزیہ نگاروں سے بات چیت ضرور کی اور انہیں یہ تاثر دیا کہ جیسے وہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین برف پگھلانے کے لئے پیغام رساں کا رول ادا کر رہے ہیں۔ جس کے بعد سے تبصروں اور ولاگ کا سلسلہ چل پڑا۔ جو ملاقات کے پانچ روز بعد بھی جاری ہے۔
تاہم اس معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ یہ سب کہانیاں ہیں۔ عمران خان کی سربراہی میں چلنے والی پی ٹی آئی سے مفاہمت کی کوششں تو دور کی بات ہے۔ ایسا کوئی آپشن تک زیر غور نہیں۔ ان ذرائع کا کہنا تھا کہ چند روز پہلے صدر عارف علوی سے جن دو اہم شخصیات نے ملاقات کی۔ اگر کوئی پیغام دینا مقصود ہوتا تو یہ دونوں دے سکتے تھے۔ اس کے لئے محمد علی درانی کی کیا ضرورت تھی؟ لہٰذا اس حوالے سے سنائی جانے والی ساری کہانیاں من گھڑت ہیں۔ جہاں تک محمد علی درانی کی جانب سے کسی مفاہمتی عمل کے اشارے دینے کا تعلق ہے تو موصوف مشرف دور کے بعد سے سیاست سے آئوٹ ہیں۔ انہیں سیاست میں زندہ رہنے کے لئے کوئی بہانہ چاہئے۔ تاکہ خبروں میں آسکیں۔ اس سے زیادہ صدر علوی سے ان کی ملاقات کی اہمیت نہیں۔
ذرائع کے بقول محمد علی درانی کی صدر علوی سے ملاقات ’’تو کون میں خوامخواہ‘‘ کے مترادف تھی۔ اگر وہ ماضی میں ’’کنگ میکر‘‘ رہے ہوتے تو پھر بھی ان کی ملاقات کی اہمیت بن جاتی۔ دوسری جانب آئینی طور پر اپنی مدت پوری کرلینے والے صدر علوی کی اہمیت بھی برائے نام رہ گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق انہیں سمجھا دیا گیا ہے کہ اگر آپ نے مزید دن ایوان صدر میں گزارنے ہیں تو یہ توقع مت رکھیں کہ یہاں بیٹھ کر ہدایات جاری کریں گے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ مفاہمت کے دروازے اس لئے بھی بند ہو چکے ہیں کہ اداروں کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ 9 مئی کے واقعات کے وہ ماسٹر مائنڈ تھے اور یہ طے کیا جا چکا ہے کہ عمران خان سمیت اس سانحہ میں ملوث کسی فرد کو معافی یا رعایت نہیں دی جائے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر علوی اور محمد علی درانی کے مابین ملاقات کو لے کر تبصرے اور کہانیاں گھڑنے والوں میں بعض پیرا شوٹرز یوٹیوبرز تو شامل ہیں ہی۔ چند صحافی اور تجزیہ کار کہلانے والے بھی پیش پیش ہیں۔ ایک ولاگر نے دعویٰ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے محمد علی درانی کو یہ پیغام دے کر صدر علوی کے پاس بھیجا تھا کہ اگر عمران خان نے اپنی سیاست بچانی ہے تو وہ سرنڈر کرتے ہوئے اپنا ٹمپریچر نیچے لائیں۔ اسی طرح ایک تجزیہ کار جو اکثر مختلف ٹی وی پروگرامز میں دکھائی دیتے۔ وہ یہ دور کی کوڑی لائے کہ محمد علی درانی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھیجا جائے والا یہ پیغام صدر علوی کے پاس لائے تھے کہ ’’اگر پارٹی بچانی ہے تو شہباز شریف بن جاؤ‘‘۔
مختلف دھڑوں میں پی ٹی آئی کی تقسیم کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد بھی عمران خان والی پی ٹی آئی موجود ہے۔ جس میں اسد قیصر اور علی محمد خان سمیت دیگر ایسے لوگ موجود ہیں جن کو پکڑا نہیں جارہا۔ بیشتر پر کوئی کیس بھی نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو کہا جارہا ہے کہ تمہارا لیڈر جیل میں ہے۔ اگر تم لوگوں نے عمران خان والی پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے سیاست جاری رکھنی ہے تو مفاہمت کی سیاست کرنی ہو گی۔ جبکہ صدر علوی کے پاس آپشن ہے کہ وہ ایسے گروپ کو لیڈ کریں۔ اور یہ کہ اس پر کافی حد تک عارف علوی آن بورڈ ہیں۔
اس تجزیہ کار کے دعوے کے بقول صدر علوی کو شہباز شریف کی مثالیں دی گئی ہیں۔ جو نواز شریف پر دباؤ بڑھا کر انہیں مزاحمت سے مفاہمت پر لے آئے تھے۔ اسی طریقہ کار پر چلتے ہوئے جو پی ٹی آئی بچ گئی ہے۔ وہ اکٹھی ہو کر اپنی قربانیوں کا واسطہ دیتے ہوئے عمران خان سے مزاحمت ترک کر دینے کا مطالبہ کرے۔ موجودہ حالات میں عمران خان کے لئے اپنے ان رہنماؤں کا مطالبہ رد کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اسی فارمولے پر کام کیا جارہا ہے۔ انہوں نے محمد علی درانی سے اپنی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ درانی نے انہیں بتایا کہ وہ ہمیشہ مفاہمت کی بات کرتے ہیں اور اسی کے لیے کوشاں ہیں۔ تجزیہ کار کے بقول جب ان سے پوچھا گیا کہ اس سلسلہ میں کیا وہ عمران خان سے بھی ملاقات کریں گے؟ تو محمد علی درانی کا کہنا تھا کہ ماضی میں وہ شہباز شریف سے ملے تھے نواز شریف سے نہیں۔