علی جبران :
سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی اتحاد کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں اس نوعیت کا الائنس محض گرینڈ ڈیموکرٹیک الائنس (جی ڈی اے) تک محدود تھا۔ اور یہ الائنس پیپلز پارٹی کو کاؤنٹر نہیں کر سکا تھا۔ یوں اسے تشکیل دینے کا مقصد فوت ہوگیا تھا۔ جبکہ پیپلز پارٹی اکثریت کے ساتھ صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی تھی۔ اس بار اس الائنس کا حجم خاصا بڑا کر دیا گیا ہے۔ تاہم ملین ڈالر کا سوال ہے کہ کیا نیا سیاسی اتحاد پیپلز پارٹی کے مضبوط سیاسی قلعہ میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہو جائے گا یا یہ تجربہ بھی ماضی کی طرح ناکام ہوگا؟
یہ سوال جب جی ڈی اے کے چند رہنماؤں کے سامنے رکھا گیا تو ان کا لہجہ بظاہر پُراعتماد تھا کہ اس بار پی پی پی کو صوبے میں ٹف ٹائم ملے گا۔ اس اعتماد کی وجہ بیان کرنے سے پہلے انہوں نے گزشتہ انتخابات میں جی ڈی اے کی ناکامی کے اسباب بیان کر نا شروع کر دیے۔ جس میں بنیادی شکوہ یہ تھا کہ پچھلی بار جی ڈی اے کے ساتھ ہاتھ کیا گیا تھا۔ عین موقع پر اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ اسے باون کی چھوٹ دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے خاص طور اندرون سندھ جھاڑو پھیر دی۔
ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے جی ڈی اے کے ایک اہم رہنما کا الزام تھا کہ ’’پچھلے الیکشن میں مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے پی پی پی نے پولیس سمیت صوبے کی پوری انتظامی مشینری کو استعمال کیا۔ اندرون سندھ کی بیشتر نشستوں پر جی ڈی اے کے امیدواروں کے پانچ پانچ، چھ چھ ہزار ووٹ ڈبل مہریں لگوا کر ضائع کیے گئے۔
الیکشن کی رات مجھ سمیت جی ڈی اے کے کے امید وار جنہیں اپنے متعلقہ حلقوں سے اپنے حق میں ووٹنگ کی مثبت رپورٹس مل رہی تھیں اور وہ پُرامید تھے کہ معرکہ مار لیں گے۔ لیکن اس کے برعکس ہوا۔ وہ صبح سوکر اٹھے تو نقشہ تبدیل تھا‘‘۔ جب جی ڈی اے کے مذکورہ رہنما سے دریافت کیا گیا کہ اس بار ایسا کیا ہے کہ انہیں ماضی کی کہانی دوہرائے جانے کا خدشہ نہیں تو ان کا کہنا تھا ’’پہلے ہم اکیلے تھے۔
اس بار ہم نے دیگر چار پانچ چھوٹی اور قومی سطح کی سیاسی پارٹیوں کو بھی الائنس کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاکہ دوبارہ دھوکا کھانے کے امکانات کم ہو جائیں۔ کیونکہ پہلے ناراض ہونے والے ہم اکیلے تھے۔ اب اتنے بڑے اتحاد کے سامنے پیپلز پارٹی کو ماضی کی طرح من مانی کی اجازت دے کر سب پارٹیوں کو ناراض کرنا کوئی افورڈ نہیں کر سکتا۔ یہی نکتہ ہماری امید کا محور ہے۔ ساتھ ہی ہمیں یہ اعتماد بھی ہے کہ اگر اس بار پی پی پی کو چھتری فراہم کرنے سے گریز کیا جاتا ہے تو نیا اتحاد الیکش میں اس سے نمٹ لے گا‘‘۔
آئندہ عام انتخابات کے موقع پر سندھ میں پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کیلئے تشکیل کے مراحل سے گزرنے والے نئے مجوزہ اتحاد میں شامل پارٹیوں کے مابین رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے بدھ کو جی ڈی اے اور جمعیت علمائے اسلام کی صوبائی قیادت کے مابین میٹنگ ہوئی تھی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) سندھ کے جنرل سیکریٹری راشد محمود سومرو اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے چیف کوآرڈینیٹر سید صدرالدین شاہ راشدی نے اس ملاقات میں آئندہ عام انتخابات سے قبل سندھ میں انتخابی اتحاد پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
اس موقع پر عرفان اللہ مروت سمیت جی ڈی اے کے چند دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ اسی طرح جمعرات کے روز مولانا راشد سومرو کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ایک وفد نے ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی دفتر بہادر آباد کا دورہ کیا۔ اس موقع پر مشترکہ کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کا کہنا تھا ’’اب وقت آگیا ہے کہ سندھ کو ان ’’سیاسی جاگیرداروں‘‘ سے نجات دلائی جائے۔ جو گزشتہ پندرہ برس سے صوبے کے انتظامی امور کو کنٹرول کر رہے تھے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب سندھ کارڈ استعمال نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ جبکہ راشد سومرو کا کہنا تھا ’’ایم کیو ایم کی قیادت سے ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ جے یو آئی، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے ) اور ایم کیو ایم عوام کے حقوق کیلئے مل کر کام کریں گی‘‘۔
نئے مجوزہ سیاسی اتحاد کی سرگرمیوں میں شریک ایک اور رہنما نے بتایا کہ ابھی صرف جے یو آئی، ایم کیو ایم پاکستان اور جی ڈی اے کے رہنماؤں کے مابین ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ آنے والے ہفتے میں ایک بڑی بیٹھک بھی متوقع ہے۔ جس میں مولانا فضل الرحمن اور پیر پگارا سمیت الائنس میں ممکنہ طور پر شامل ہونے والی دیگر پارٹیوں کے رہنما بھی شریک ہوں گے۔ رہنما کے بقول سندھ میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کیلیے نئے اتحاد میں نون لیگ اور اے این پی کے علاوہ سندھی قوم پرست جماعتوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ تاکہ ایک مضبوط اتحاد تشکیل پا سکے۔
اس سلسلے میں رابطے جاری ہیں۔ رہنما کا مزید کہنا تھا کہ سانگھڑ، خیرپور، میرپور خاص اور بدین میں جی ڈی اے کا اپنا ووٹ بینک تو ہے ہی۔ ان اضلاع میں نون لیگ بھی قابل ذکر ووٹ رکھتی ہے۔ یہاں کے پنجابی آبادگار نون لیگ کے حامی ہیں۔ اس لئے نون لیگ کو بھی لوپ میں لینا ضروری ہے۔
دوسری جانب لاڑکانہ، شکار پور، سکھر اور گھوٹکی میں جے یو آئی کا اچھا خاصا ووٹ بینک ہے۔ کراچی، حیدر آباد، میر پور خاص اور ٹنڈوالہ یار سمیت دیگر اضلاع میں ایم کیو ایم پاکستان اور دیگر پارٹیاں مضبوط ووٹ بینک رکھتی ہیں۔ چنانچہ اس نوعیت کا مضبوط بڑا سیاسی اتحاد عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے لیے حقیقی چیلنج بن سکتا ہے۔