سرکوبی کیلیے پنجاب کے کچے میں بھی فوجی آپریشن کرنا ضروری ہوگا- فائل فوٹو
 سرکوبی کیلیے پنجاب کے کچے میں بھی فوجی آپریشن کرنا ضروری ہوگا- فائل فوٹو

کچے کے ڈاکو سندھ سے پنجاب پہنچنے لگے

احمد خلیل جازم :
نگران وزیر اعلیٰ سندھ اور کابینہ کی جانب سے کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کی منظوری بعد اطلاعات ہیں کہ بالائی سندھ میں رینجرز اور پولیس کے اہلکاروں کی بڑی تعداد پہنچ چکی ہے۔ اس کے علاوہ دریا کے علاقے میں آپریشن شروع کرنے کے لیے مزید نفری آئندہ دو روز میں پہنچ جائے گی۔

دوسری جانب پنجاب کچے سے اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ سندھ کچے کے ڈاکوئوں نے پنجاب خاص طور پر روجھان، تھانہ بنگلہ، رحیم یار خان، صادق آ باد اور دیگر مقامات پر کچے کا رخ کرلیا ہے۔ وہاں موجود پنجاب کچے کے ڈاکوئوں نے انہیں پناہ گاہیں فراہم کرنا شروع کردیا ہے۔ اسی لیے مقامی طور پر پنجاب کچہ میں بھی فوجی آپریشن کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ سینئر مقامی صحافیوں کے بقول، سندھ سے اغوا کیے گئے بعض مغوی بھی پنجاب کچے منتقل کیے جاچکے ہیں۔ دوسری جانب نگراں وزیر داخلہ سندھ نے اعلان کیا ہے کہ جس سردار کے علاقے سے کوئی اغوا ہوگا ذمہ دار بھی وہی سردار ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ مغوی کی بازیابی کیلئے اگر تاوان ادا کرنا ہوا تو وہ بھی سردار ہی ادا کرے گا۔

سندھ میں جیکب آباد اور شکار پور سمیت کچے کے علاقوں سے ذرائع نے خبر دی ہے کہ سندھ میں فوجی آپریشن کے بارے اطلاعات ملتے ہی سندھ کچے کے ڈاکوئوں نے پنجاب کچے کا رخ کرنا شروع کردیا ہے۔ خاص طور پر روجھان کچے کے جزیروں کو مسکن بنایا جارہا ہے۔ دریائے سندھ اس وقت جوبن پر ہے اور اس میں قائم مختلف جزیروں پر ڈاکوئوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں۔

پنجاب کچے کے مقامی لوگوں نے گزشتہ آپریشن میں بھی یہی مطالبہ کیا تھاکہ سندھ اور پنجاب کے کچے میں مشترکہ فوجی آپریشن کیا جائے اور دونوں صوبوں میں موجود جرائم پیشہ افراد کو اکٹھا ٹارگٹ کیا جائے۔ ایک جانب آپریشن کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، علاوہ ازیں کچے کے ڈاکوئوں سے زیادہ ان کے سہولت کاروں پر ہاتھ ڈالا جائے کیوں کہ کچے کے ڈاکو ان کے بغیر کوئی کارروائی نہیں کرسکتے۔

ان ڈاکوئوں کے سہولت کار نہ صرف وڈیرے اور جاگیر دار ہیں بلکہ بعض بینکوں کا عملہ بھی ان کی سہولت کاری میں شامل ہے۔ یہ عملہ صارفین کے اکائونٹ پر نظر رکھتا ہے، جس اکائونٹ میں زیادہ پیسے آتے ہیں اس کی اطلاع مختلف ذرائع سے ڈاکوئوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اور ڈاکو اس صارف کے گھر کی ریکی شروع کرتے ہیں جس کے بعد اس گھر کا کوئی مکین اغوا کرلیا جاتا ہے، یا پھراس کو بھتے کی دھمکی بھجوا دی جاتی ہے۔ جب کہ سندھ کے ڈاکوئوں کا طریقہ واردات مختلف ہے۔ وہ مقامی لوگوں کے بجائے زیادہ تر غیر مقامی لوگوں کو اغوا کرتے ہیں۔ جولائی کے مہینے میں خیبرپختون کئے علاقے ٹانک کے ایک مزدور باسی خالد خان بٹنی کا اغوا کیا گیا اور اس کے وارثان سے بڑے تاوان کا مطالبہ کیا گیا۔ڈاکو اس پر تشدد کرتے اور اس کی تصاویر ورثا کو بھجواتے تھے۔

اس طرح کے کئی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔ جب کہ اکثر قاتل بھی کچے میں ڈاکوئوں کے پاس جاکر پناہ لے لیتے ہیں۔ اس حوالے سے گزشتہ ماہ سکھر میں قتل ہونے والے صحافی جان محمدکے قتل میں سہولت فراہم کرنے والوں کی گرفتاری کا دعویٰ بھی پولیس نے کیا ہے۔ ان سہولت کاروں سے ملی اطلاعات کے بعد کچے میں ڈرون کیمروں کے ذریعے اصل قاتلوں کے ٹھکانوں کو بھی مارک کرلیا گیا ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکوئوں کو ایک صوبے سے دوسرے صوبے جانے کا جو فائدہ میسر ہے، اسے ختم کرنے کیلئے سندھ اور پنجاب کے کچے میں بیک وقت فوجی آپریشن کرنا لازمی ہے۔