علی جبران:
عمران خان کے بارے میں بے صبرا اور یو ٹرن کا ماہر ہونے کے ساتھ یہ تاثر بھی عام ہے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے قریبی لوگوں کے احسانات کو فراموش کر دیتے ہیں۔ جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی کی شخصیت کے بہت سے پہلو ابھی عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ یہاں ایک ایسا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ جس سے ان کی شخصیت کا ایک نیا پہلو سامنے آتا ہے۔ وہ یہ کہ انہیں کوئی بات بری لگ جائے تو وہ اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ لیکن اس قصے میں انہیں منہ کی کھانی پڑی۔ جب ایک سابق ساتھی کے تحفے انہوں نے واپس کئے تو اس نے انہیں جواباً چائے کا خرچہ بھیج دیا۔ اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عمران خان نے یہ خرچہ چپ چاپ رکھ لیا۔
عمران خان کو نہلے کا جواب دہلے سے دینے والے اس سیاستدان کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔ انہوں نے مردان سے انیس سو اناسی میں بلدیہ کے مقامی ممبر کی حیثیت سے سیاست میں قدم رکھا تھا۔ انیس سو نواسی میں صوبائی وزیر سیاحت رہے۔ انیس سو ترانوے سے انیس سو چھیانوے تک صوبائی وزیر تعلیم اور پھر انیس سو ننانوے میں پیپلز پارٹی خیبرپختونخوا کے صدر بن گئے۔ تاہم پی پی پی کے اعلیٰ عہدیداروں سے اختلافات کے باعث دو ہزار چار میں انہوں نے پیپلز پارٹی کی صوبائی صدارت چھوڑ دی۔
اسی طرح دو ہزار چھ میں وہ اے این پی میں شامل ہوئے اور فروری دو ہزار آٹھ میں این اے نو مردان سے اے این پی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی بن گئے۔ لیکن یہاں بھی پارٹی پالیسیوں پر ان کا اختلاف ہوا۔ آخر کار دو ہزار گیارہ میں انہوں نے تحریک انصاف جوائن کرلی۔ کچھ عرصہ میں پارٹی کے چیئرمین عمران خان سے ان کے دوستانہ تعلقات ہوگئے۔ انہیں پارٹی کا مرکزی نائب صدر بنا دیا گیا تھا۔ اس دوران عمران خان سے ملنے کے لئے ان کا اسلام آباد میں آنا جانا ہوتا تو ظاہر ہے ان کے لئے چائے پانی کا انتظام کیا جاتا تھا۔
خیبرپختونخوا کے یہ سیاست دان خواجہ محمد خان ہوتی ہیں۔ جب وہ پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے تو انہوں نے مردان میں اپنی رہائش گاہ ’’ہوتی ہائوس‘‘ میں عمران خان کی دعوت کی۔ قریبی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس موقع پر خواجہ ہوتی نے پختون روایات کے مطابق بھرپور مہمان نوازی کی اور عمران خان کو ایک مہنگی پستول سمیت چند دیگر قیمتی تحفے دیئے تھے۔ لیکن یہ ساتھ بمشکل سوا سال چلا۔ پھر خواجہ ہوتی کے عمران خان سے اختلافات پیدا ہوگئے اور انہوں نے ستمبر دو ہزار بارہ میں پی ٹی آئی چھوڑ دی۔
چند روز بعد عمران خان کے قریبی دوست نعیم الحق (مرحوم) مردان میں خواجہ ہوتی کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ ان کے پاس وہ سارے تحفے تھے۔ جو خواجہ ہوتی نے عمران خان کو دیئے تھے۔ نعیم الحق نے خواجہ ہوتی کو بتایا کہ پارٹی چیئرمین نے ان کے ہاتھ یہ تحفے واپس بھجوائے ہیں۔ خواجہ ہوتی کے قریبی ذرائع کے بقول ’’ہمارے معاشرے، خاص طور پر پختون روایات میں یہ ایک قسم کی گالی ہے کہ کوئی تعلقات خراب ہونے پر تحفے واپس کر دے۔ خواجہ ہوتی نے بھی اسے اپنی بے عزتی تصور کیا۔ چنانچہ خواجہ ہوتی نے نعیم الحق کو کہا کہ وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھیں۔ وہ کچھ دیر میں آتے ہیں۔ پھر گھر کے اندر جاکر انہوں نے چوبیس ہزار مالیت کا ایک چیک عمران خان کے نام لکھا اور نعیم الحق کو کہا کہ ’’یہ چیک اپنے چیئرمین کو دے دینا اور کہنا کہ انہوں نے میرے لئے چائے پانی کی مد میں جو پیسے خرچ کئے تھے۔ یہ اس کا معاوضہ ہے‘‘۔
قریبی ذرائع کے مطابق نعیم الحق کے لئے یہ بات غیر متوقع تھی۔ لیکن انہوں نے یہ چیک خواجہ ہوتی سے لے لیا اور واپس روانہ ہوگئے۔ اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب چند روز بعد خواجہ ہوتی نے اپنا اکائونٹ چیک کیا تو اس میں سے چوبیس ہزار روپے نکالے جاچکے تھے۔ یعنی عمران خان نے چیک کیش کرالیا تھا۔ یوں بطور میزبان انہوں نے وقتاً فوقتاً خواجہ ہوتی کے لئے چائے پانی کا جو بندوبست کیا تھا۔ اس کا معاوضہ وصول کرلیا۔ خواجہ ہوتی سوچتے رہ گئے کہ ’’ایسا بھی ہوتا ہے؟‘‘۔ انہوں نے تو اپنے تئیں یہ چیک بھیج کر عمران خان کو احساس دلانے کی کوشش کی تھی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ آج تحائف سے متعلق اہم معاملے ’’توشہ خانہ کیس ریفرنس‘‘ میں وہ نہ صرف پانچ برس کے لئے نااہل ہیں۔ بلکہ مجرم ثابت ہونے پر تین برس کی قید بھی کاٹ رہے ہیں۔ قصہ مختصر عمران خان کو جہاں تحفے واپس کرنے چاہئے تھے۔ وہاں انہوں نے بیچ ڈالے اور جہاں اخلاقی طور پر واپس نہیں کرنے تھے۔ وہاں لوٹا دیے۔