امت رپورٹ:
جعلی پائلٹس لائسنس کے ایک اہم مقدمے میں نامزد تمام بیس ملزمان بری کر دیئے گئے ہیں۔ مقدمہ خارج کرکے ضمانتی رقوم بھی واپس کی گئی ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں اس کیس کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے ایف آئی اے اور سول ایوی ایشن کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں سابق وزیر برائے شہری ہوا بازی غلام سرور نے یہ بیان دے کر ہلچل مچادی تھی کہ بیشتر پاکستانی پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی ساری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی تھی۔ جبکہ وہ پاکستانی پائلٹس جو پی آئی اے اور غیر ملکی ایئر لائنوں میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ انہیں بھی شدید مشکلات اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق وزیر ہوا بازی کے اس متنازعہ بیان کے سبب امریکہ اور یورپی یونین ممالک میں پاکستانی پروازوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جو آج تک برقرار ہے۔
سابق وزیر ہوا بازی غلام سرور کے اس تشویشناک بیان کے بعد پاکستان سول ایویشن اتھارٹی (سی اے اے) نے پہلے محکمہ جاتی کاروائی کی اور مبینہ جعلی لائسنسوں کے متعلق فرانزک بھی کرایا تھا۔ بعد ازاں اس سلسلے میں ایک تحریری درخواست ایف ائی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی کو دے دی تھی۔ تحقیقاتی ادارے کے پاس پی آئی اے سے متعلق تریپن انکوائریاں تھیں۔ ان میں سے آٹھ جعلی لائسنس اور اس سے متعلقہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے تھیں۔
اس وقت سرکل کے قائم مقام سربراہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر رؤف شیخ تھے۔ ان کی موجودگی میں تین مقدمات درج ہوئے اور بعد میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد فاروق کے دور میں پانچ مقدمات درج ہوئے۔ مذکورہ مقدمات میں کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی تھیں۔ مگر بیشتر پائلٹس نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی تھیں۔
اب ایڈیشنل جج سینٹرل ٹو کراچی نے جعلی پائلٹس لائسنس کیس کے تقریباً ایک جیسے درج سات مقدمات میں سے سب سے اہم ایک مقدمہ نمبر 7/21 کا چار صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ فیصلے میں تحریر کیا گیا ہے کہ دونوں اداروں ایف آئی اے اور سی اے اے کا دعویٰ تھا کہ دو سو باسٹھ پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں۔ مگر مقدمات سڑسٹھ پائلٹس کے خلاف درج کیے گئے۔ قصہ مختصر عدالت نے ان مقدمات میں سے ایک مقدمہ نمبر 7/ 21 میں نامزد بیس پائلٹس کو باعزت بری کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔
فیصلے میں سول ایوی ایشن اتھارٹی اور ایف ائی اے کی تحقیقات کے حوالے سے بھی سوال اٹھائے گئے کہ کس طرح ایک سو اسّی پائلٹس کو بری الزمہ قرار دیا گیا اور محض سڑسٹھ کو ملزم بنا دیا گیا۔ جبکہ الزامات تقریباً ایک جیسے تھے۔ مقدمے کے آخری تفتیشی افسر، سب انسپکٹر راحت خان اور لیگل افسر نے بھی کیس ختم کرنے کی درخواست کی۔
فیصلے میں سینیٹ کمیٹی برائے شہری ہوا بازی کی کاروائیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح دونوں ادارے کمیٹی کو تحقیقات کے حوالے سے مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔ فیصلے کے وقت ضمانت کرانے والے تمام بیس ملزمان عدالت میں حاضر تھے۔ ان کی بریت اور مقدمہ خارج کرنے کے ساتھ ان کی جمع کردہ ضمانتی رقوم بھی واپس کرنے کا حکم دیا گیا۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق مذکورہ سرکل میں اس حوالے سے سن دو ہزار اکیس میں مجموعی طور پر آٹھ مقدمات درج ہوئے۔ مقدمہ نمبر سات کے پہلے تفتیشی افسر انسپکٹر جبار مہندرو تھے اور بعد میں تفتیش سب انسپکٹر راحت خان کو منتقل کر دی گئی۔ قابل اعتماد ذرائع کے مطابق یہ واحد مقدمہ تھا جس پر ایف آئی اے پر بے انتہا دباؤ تھا اور تین نامزد ملزمان کے نام ایف آئی آر میں شامل نہ کرنے کا کہا جاتا رہا۔ لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ دیگر مقدمات میں آٹھ نمبر کے مقدمے کا تفتیشی افسر سب انسپکٹر راحت خان تھا۔ نو کے تفتیشی افسر مرحوم انسپکٹر گل شیر مغیری تھے۔
مقدمہ نمبرچوبیس کے انسپکٹر جبار مہندرو تھے۔ مقدمہ نمبر گیارہ کی انسپکٹر عمارہ قریشی، مقدمہ نمبر تیرہ کے پہلے تفتیشی افسر سب انسپکٹر شبیر چانڈیو تھے۔ جنہوں نے عدالت میں ضمنی چالان پیش کیا۔ بعد میں تفتیش انسپکٹر اسفندیار کو منتقل کر دی گئی۔ جنہوں نے حتمی چالان پیش کیا۔ مزید سینتالیس پائلٹس باقی چھ ایف آئی آرز میں نامزد ہیں۔ اور یہ چھ مقدمات بھی مذکورہ عدالت میں ہی زیر سماعت ہیں۔