محمد علی :
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) عالمی سطح پر سند یافتہ معاشی استحصالی ادارہ ثابت ہوگیا ہے۔ قرض دینے کے بدلے اس نے درجنوں ممالک کی معیشتوں کو ڈبو دیا۔ جبکہ خوراک اور ایندھن پر سبسڈی کو ختم کروا کر بنیادی انسانی حقوق پامال کئے۔ نت نئے ٹیکسوں سے غریب کی کمر توڑ دی۔ جس میں امیر بھی اسی تناسب سے ٹیکس دے رہے ہیں۔ جبکہ نئی بھرتیاں رکوانے کے علاوہ تنخواہوں کو کم کرنے کی شرائط بھی کئی معاہدوں میں شامل کی گئیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے آئی ایف ایم کے استحصالی نظام پر تفصیلی رپورٹ جاری کردی ہے۔ جس کے مطابق آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسنے والے کئی ملک پہلے سے زیادہ مقروض ہوگئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے گزشتہ تین برس میں مختلف ممالک کے لیے 39 میں سے جو 32 پروگرامز منظور کئے۔ ان میں کم از کم ایک شرط ایسی ضرور تھی جو بنیادی انسانی حقوق کے منافی تھی۔
اس کے علاوہ 20 پروگرام ایسے تھے۔ جن میں ایندھن اور بجلی پر عوام کو حاصل رعایت یا سبسڈی ختم کی گئی۔ 32 پروگرامز میں نئی بھرتیوں کے عمل کو روک دیا گیا۔ یعنی روزگار کے ذرائع مسدود کر دیئے گئے۔ اسی طرح ان میں تنخواہوں میں کمی لانے کی شرائط بھی رکھی گئیں۔ ستم یہ کہ غریب سے دو وقت کی روٹی چھین لی گئی۔ 23 پروگرام ایسے تھے۔ جن میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس عوام پر لگائے گئے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی اس رپورٹ میں regressive ٹیکسز کے نفاذ پر سخت تنقید کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ وہ ٹیکس ہوتے ہیں جو ایک ہی شرح سے ہر طبقے سے وصول کئے جاتے ہیں۔ اس میں غریب اور امیر میں تمیز نہ کرکے معاشی بگاڑ پیدا کیا گیا۔ مثال کے طور پر ایک غریب صارف بھی بجلی کے بل پر دو فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے اور امیر بھی اسی تناسب سے ٹیکس دیتا ہے۔ حالانکہ امیر کو اس نئے ٹیکس میں زیادہ حصہ دینا چاہیے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی ہے کہ austerity پالیسی کے تحت حکومتی اخراجات میں کمی کے حوالے سے حد بندی کی جاتی ہے کہ ان کو کس طرح اور کس حد تک کم یا کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ لیکن آئی ایم ایف نے آج تک اس کا کوئی اسٹینڈرڈ پروسیجر یا عالمی پیمانہ وضع کرنے کی زحمت نہیں کی۔
کیس اسٹڈی کے طور پر اردن کی مثال کو پیش کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 2012ء سے وہاں آئی ایم ایف کے مختلف پروگرامز چل رہے ہیں۔ ان میں اتنی سخت شرائط تھیں کہ حکومت کو عوام کیلئے بہت سی رعایتیں ختم کرنا پڑیں۔ جس میں خوراک، ایندھن اور بجلی کی سبسڈی شامل ہے۔ انکم ٹیکس اور کنزیومر ٹیکس سمیت بہت سے نئے ٹیکسز لگا دیئے گئے۔ اس کے نتیجے میں جب عوام کی کمر ٹوٹ گئی تو پھر آئی ایم ایف نے ورلڈ بینک کے ساتھ مل کر مختلف کیش ٹرانسفر پروگرام شروع کئے۔ وہ بھی بے سود رہے۔ اب اردن میں حالات یہ ہیں کہ 2012ء سے پہلے جی ڈی پی کے مقابلے میں جو قرض کی شرح تھی، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی مہربانی سے اب وہ اس سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے ہیومن رائٹس واچ نے آئی ایم ایف کے استحصالی نظام کے حوالے سے Bandage on a Bullet Wound: IMF Social Spending Floors and the Covid-19 Pandemic کے عنوان سے ایک سنسنی خیز رپورٹ ریلیز کی ہے، جس میں مارچ 2020ء میں کورونا وبا کے آغاز سے لے کر مارچ 2023ء تک آئی ایم ایف کی طرف سے 38 ممالک کیلئے منظور کیے جانے والے 39 پروگرامز کا جائزہ لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے اکثر قرضے austerity پالیسیز یعنی حکومتوں کو اخراجات کرنے کی ایسی سخت شرائط پر دیئے۔ جن سے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو نقصان پہنچا۔ لیکن اس نقصان کی تلافی کیلئے اٹھائے گئے اقدامات ناکافی رہے۔
اس رپورٹ میں پاکستان کے کیس کو بھی آئی ایم ایف کے ایسے ہی پروگرامز کی مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جن سے عوام کے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوتے آئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ پاکستان کے سروپ اعجاز نے کہا کہ آئی ایم ایف پر بھی غریب کے بنیادی حقوق کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
حکومتوں اور آئی ایم ایف دونوں کو غریب عوام کے حقوق کا خیال رکھنا ہوگا۔ معاشی انصاف کے حقوق بنیادی انسانی حقوق کا حصہ ہیں۔ جیسا کہ تعلیم اور صحت تک رسائی اور بہتر زندگی گزارنے کا حق ہے۔ آئی ایم ایف نجی قرض داروں کی طرح نہیں ہے۔ اس پر عالمی قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف خود یہ کہتا ہے کہ وہ اس بات کی ذمہ داری لیتا ہے کہ پسے ہوئے اور کمزور طبقے کے حقوق کا تحفظ کرے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔