کراچی: ڈپٹی گورنر بینک دولت پاکستان ڈاکٹر عنایت حسین کے سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے مالیات اور محاصل کے اجلاس میں دیے گئے بیان کی بنیاد پر ذرائع ابلاغ کے بعض حصوں میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ کہ پاکستان کے بینکاری نظام میں 500,000 روپے سے زائد کے بینک ڈپازٹس غیر محفوظ ہیں۔ یہ دوٹوک انداز میں واضح کیا جاتا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے مضبوط ضوابطی اور نگرانی کے فریم ورک کے ماتحت پاکستان میں قائم مستحکم بینکاری نظام کے باعث ڈپازٹس محفوظ ہیں۔پاکستان کے بینکاری نظام میں بہ کفایت سرمایہ موجود ہے، یہ بے حد سیال (liquid)اور منافع بخش ہے جس میں خالص غیراداشدہ قرضوں یعنی خراب قرضوں کی سطح کم ہے۔
اس سیکٹر میں کیلنڈر سال 23ئ کی پہلی ششماہی میں 284 ارب روپے کی بھرپور منافع آوری درج کی گئی جو کیلنڈر سال 22ء کی پہلی ششماہی سے تقریباً 125 فیصدزیادہ ہے۔ اس بلند آمدنی سے بینکوں کا سرمایہ بھی مضبوط ہوا اور شرح کفایت سرمایہ جون 2023ء کے آخر تک بڑھ کر 17.8 فیصد ہوگئی جبکہ جون 2022ئن کے آخر میں یہ 16.1 تھی جواسٹیٹ بینک کی کم از کم ضروری حد 11.5 اور بین الاقوامی معیار 10.5 سے خاصی زیادہ ہے۔
ادائیگی قرض کی صلاحیت (سالوینسی) کے بفرز کی بہتری کی وجہ سے بینکاری شعبے کی شدید دھچکے برداشت کرنے کی اہلیت بھی مزید بہتر ہوگئی ہے۔بینکاری نظام کے استحکام کے علاوہ ڈپازٹ پروٹیکشن کارپوریشن (ڈی پی سی) نے تحفظ میں مزید اضافہ کیا ہے اورہر ڈپازٹر کو 500,000 روپے تک کا انشورنس کور فراہم کیا ہے۔ یہ عمل بہترین بین الاقوامی طور طریقوں اورعالمی رجحانات سے ہم آہنگ ہے۔ دنیا بھر میں بینک کی ناکامی کی صورت میں، جس کا امکان کم ہوتا ہے، ڈپازٹرزکی رقوم کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے نگرانی کی اتھارٹیز اور ڈپازٹ کو تحفظ دینے والی ایجنسیوں کی جانب سے ڈپازٹ کا تحفظ حفاظتی نظام کے کلیدی اجزا میں شامل ہے۔
اگر بینک ناکام ہوجائے تو ڈی پی سی کی جانب سے بیمہ کردہ رقم فوری طور پر ڈپازٹرز کو دستیاب ہوتی ہے۔ تاہم جب دشواری کا شکار بینک کا ایک ضابطہ کارانہ عمل کے ذریعے تصفیہ ہوتا ہے تو ڈپازٹس کی بقیہ رقوم بھی نکلوائی جاسکتی ہیں۔ فی الوقت 94 فیصد ڈپازٹرز کو 2016ء کے ڈپازٹ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت مکمل تحفظ حاصل ہے۔