فلسطینی علاقوں پر یہودی بالادستی نے یہ دن دکھایا، فائل فوٹو
فلسطینی علاقوں پر یہودی بالادستی نے یہ دن دکھایا، فائل فوٹو

سابق اسرائیلی فوجی اپنے ہی حکمرانوں پر برس پڑے

امت رپورٹ:
اسرائیل کے سابق فوجی خود اپنے حکمرانوں کی فاشسٹ اور ظالمانہ پالیسیوں پر برس پڑے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں موجودہ صورتحال کا ذمہ دار انہوں نے خود اپنے حکمرانوں کی پالیسیوں کو ٹھہرایا ہے۔

ریٹائرڈ اسرائیلی فوجیوں کی ’’خاموشی توڑ دو‘‘ نامی تنظیم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) پر پوسٹ کردہ ایک تھریڈ میں سات اکتوبر کو اسرائیلی علاقوں پر حماس کے تباہ کن حملے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’حماس کا حملہ اور اس کے بعد سے رونما ہونے والے واقعات ناقابل بیان ہیں۔ ہم اسرائیلی علاقے پر ظالمانہ کارروائی کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ فلسطینی علاقوں پر یہودی بالادستی سے متعلق ہمارے حکمرانوں کی پالیسی نے ہمیں آج اس مقام پر پہنچایا ہے۔

اسرائیل کی سیکیورٹی پالیسی، کئی دہائیوں سے، تنازعات کو ختم کرنے کے بجائے تنازعات کو مینیج کرنا رہی ہے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی اسرائیلی حکومتیں یہ سوچ کر تشدد کے ایک دور کے بعد دوسرا دور چلاتی رہیں کہ اس سے کوئی فرق پڑے گا۔ اپنی اس فاشسٹ پالیسی کو وہ ’’سیکیورٹی‘‘ اور ’’ڈیٹرنس‘‘ کا نام دیتی ہیں۔ حالانکہ یہ سب غزہ کی پٹی پر بمباری کے کوڈ الفاظ ہیں۔ جب بھی غزہ کے رہائشیوں کو اجتماعی سزا دینا مقصود ہو تو سیکیورٹی اور ڈیٹرنس کے نام پر یہ کہہ کر بمباری کی جاتی ہے کہ دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ لیکن ہمیشہ بھاری ہلاکتیں شہریوں کی ہوتی ہیں۔

تشدد کے اس سلسلہ کے درمیان ہم غزہ والوں کے لیے زندگی ناممکن بنا دیتے ہیں، اور پھر جب یہ سب کچھ ابلتا ہے تو حیران رہ جاتے ہیں۔ ہم متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی بات کرتے ہیں۔ جبکہ توقع کرتے ہیں کہ ہمارے گھر کے عقب میں بنائی گئی کھلی ہوا کی جیل (غزہ) پر دنیا آنکھیں بند کر لے گی۔ انسانی حقوق کی ناقابل بیان خلاف ورزیوں کرکے ہم نے خود اپنے شہریوں کے لیے عدم تحفظ کی فضا پیدا کی ہے۔ آج سارے اسرائیلی یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ ہفتے کو حماس نے حملہ کیا تو ہمارے فوجی کہاں تھے؟ اسرائیلی ڈیفنس فورسز کیوں دکھائی نہیں دیں؟

بد قسمتی سے سچائی یہ ہے کہ وہ مغربی کنارے پر ’’مجبور‘‘ تھے۔ فلسطینی شہر نابلس میں اسرائیلی آبادکاروں کو زبردستی بسانے کا عمل محفوظ بنانے، ہیبرون میں فلسطینی بچوں کا پیچھا کرنے اور حوارہ کی سڑکوں سے فلسطینی پرچم ہٹانے کیلیے فوجی بھیجے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک نے دہائیوں پہلے فیصلہ کیا تھا کہ وہ لاکھوں کی مقبوضہ شہری آبادی پر کنٹرول برقرار رکھنے کیلئے اپنے شہریوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیں گے۔ آج اسی پالیسی کا خمیازہ اسرائیلی شہری بھگت رہے ہیں۔ یہ سب کچھ فلسطینی علاقوں میں ناجائز آبادکاری کے مسیحی ایجنڈے کی خاطر کیا جارہا ہے‘‘۔

سابق اسرائیلی فوجیوں کی تنظیم نے مزید کہا ہے کہ ’’ہم نے فلسطینی علاقوں پر قبضے اور غزہ کے محاصرے کے خاتمے کیلئے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے۔ تاکہ کوئی بھی انسان ظلم کی زد میں نہ رہے۔ کسی ایک کا خون کسی دوسرے کے خون سے زیادہ سرخ نہیں ہے۔ اس سرزمین میں رہنے والا ہر فرد ایک اچھی، محفوظ اور آزاد زندگی گزارنے کا مستحق ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم اجتماعی سزا اور قبضے کو برقرار رکھنے کی اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور اسے جاری رکھیں گے۔ جس طرح ہم اسرائیل پر حماس کے حملے کو درست نہیں سمجھتے۔ اسی طرح غزہ پر اندھادھند بمباری کے خلاف بھی ہمارا موقف واضح ہے۔ ہر انسان محفوظ اور آزادی کی زندگی کا مستحق ہے۔ چاہے اسرائیلی ہو یا فلسطینی ہو‘‘۔