امت رپورٹ :
ایک ایسے وقت میں جب ساری دنیا کی توجہ غزہ پر ہے، قابض اسرائیلی حکومت نے مغربی کنارے میں مسلح وحشی یہودی آباد کاروں کو فلسطینوں کے قتل اور لوٹ مارکی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد سے اب تک ساٹھ کے قریب نہتے فلسطینیوں کو فائرنگ اور تشدد کر کے شہید کیا جا چکا ہے۔
مقتولین کے جنازوں پر بھی گولہ باری کی جاتی ہے۔ درجنوں املاک اور گاڑیوں کو نذرآتش اور فصلوں کو آگ لگائی جا چکی ہے۔ سیکڑوں کی تعداد میں مغربی کنارے سے فلسطینی نقل مکانی کر چکے۔ جبکہ اسرائیلی فوجیوں اور پولیس نے ناصرف اس قتل و غارت پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں، بلکہ اس نوعیت کے کئی واقعات میں وہ خود بھی شامل رہے۔ تصاویر اور ویڈیو شواہد کے ساتھ یہ ہولناک تقصیلات خود ایک اسرائیلی این جی او ’’یش دین‘‘ نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کی ہیں۔
’’یش دین‘‘ نے اس سلسلے میں اسرائیلی فوجی حکام کو ایک خط بھی لکھا ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’مغربی کنارے میں بے لگام یہودی آباد کار جنہیں فوج کی حمایت حاصل ہے، بے گناہ فلسطینیوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کوئی قانون نافذ کرنے والا نہیں، صرف انتقام اور اجتماعی سزا کا چلن ہے۔
ان یہودی ملیشیاؤں کو فلسطینیوں پر حملہ کرنے سے کوئی بھی چیز نہیں روک رہی ہے۔ حکام اور میڈیا کی خاموشی شدت پسندی کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ گیارہ اکتوبر کو پیش آنے والے ایک واقعہ میں مسلح یہودی آباد کاروں کے ہاتھوں 4 فلسطینی قتل ہوئے۔ اس کے بعد جب مقتولین کی نماز جنازہ پڑھائی جارہی تھی تو اس پر بھی گولہ باری کر کے مزید ایک فلسطینی کو قتل کر دیا گیا۔ سات اکتوبر سے اب تک یہودی آباد کاروں کے ہاتھوں مغربی کنارے میں چھپن فلسطینی قتل ہو چکے ہیں۔ جنوب میں جنگ کی ہولناکیوں کے درمیان، عوام کی نظروں سے دور، اسرائیلی فوجی اور آباد کار مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف بدترین تشدد میں مصروف ہیں۔‘‘
’’یش دین‘‘ نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا ہے ’’اسرائیلی فوج نے تقریباً ہر شہر، قصبے اور گاؤں کے داخلی اور خارجی راستے بند کر دیے ہیں۔ مغربی کنارے کے بیشتر بڑے راستوں پر، فوج صرف اسرائیلی آباد کاروں کو سفر کی اجازت دیتی ہے۔ یہودی آباد کاروں نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف متعدد حملے کیے ہیں۔ یہ حملے گاؤں کے اندر، سڑکوں پر اور زرعی زمینوں پر ہو رہے ہیں۔ یہودی آبادکار گولیاں چلا رہے ہیں، زخمی کر رہے ہیں، آگ لگا رہے ہیں اور املاک اور درختوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ فوجی، تشدد کو جاری رکھنے کی اجازت دے رہے ہیں اور بعض اوقات اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ رات درجنوں مسلح آباد کاروں نے مادام گاؤں پر حملہ کیا، ایک گاڑی کو آگ لگا دی اور گھروں اور گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔ فوجی موجود تھے اور کچھ نہیں کیا۔ اسی طرح یہودی آباد کاروں کے ایک مسلح گروپ نے وادی الصیق کمیونٹی پر حملہ کیا۔ انہوں نے چرواہوں کو مارا اور ان کا سامان لوٹ لیا۔‘‘
رپورٹ کے مطابق اگرچہ سات اکتوبر کے بعد سے مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کے حملوں میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے، تاہم پچھلے دو برسوں سے آباد کار، روزانہ فلسطینی کمیونٹی کو خوفزدہ کر رہے ہیں تاکہ انہیں بھاگنے پر مجبور کیا جائے اور ان کی زمین پر قبضہ کر لیا جائے۔ اس ہفتے کے آخر میں، فلسطینی کمیونٹی کے ایک سو سے زائد افراد نے اپنا سامان باندھا اور اپنے گھر سے نکل گئے۔ آباد کاروں کی طرف سے فلسطینی برادریوں کی زبردستی منتقلی، ریاست کی حمایت سے کی جاتی ہے۔ اب جنگ کی آڑ میں اسرائیلِ، فلسطینی باشندوں سے مغربی کنارے کے علاقے کو چھیننے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہے۔
’’یش دین‘‘ نے اسرائیلی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر میجر جنرل یہودا فوچس اور سول انتظامیہ کے سربراہ جنرل فارس اتیلا کو ایک ہنگامی خط بھیجا ہے، جس میں فلسطینیوں کی جان و مال کو آباد کاروں کے تشدد سے بچانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’مغربی کنارہ مکمل طور پر لاقانونیت کا شکار ہو چکا ہے۔
آباد کار، فلسطینیوں کے خلاف جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ آباد کاروں کو حکومت نے مسلح کیا ہے اور وہ ان ہتھیاروں کو فلسطینیوں پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ صورت حال مسلسل خراب ہو رہی ہے۔ جنگ کے سائے میں ہر چیز کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ آباد کاروں کے تشدد سے بہت زیادہ ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ پہلے ہی چھپّن فلسطینی قتل کیے جا چکے ہیں۔ خاص طور پر ایسے واقعات میں اسرائیلی فوجیوں کے شامل ہونے نے صورتحال مزید خطرناک بنا دی ہے۔ جیسا کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک افسر کی قیادت میں اسرائیلی فوجی آباد کاروں کو ایک گاؤں میں لے گئے، اور وہاں کے کئی فلسطینی رہائشیوں کو گولی مار دی۔‘‘
واضح رہے کہ انیس سو سڑسٹھ کی اسرائیل عرب جنگ کے بعد سے مغربی کنارے پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ اس قبضے کے بعد سے قابض صیہونی حکومت مغربی کنارے پر مسلسل غیر قانونی یہودی بستیاں آباد کررہی ہے۔ انیس سو پچانوے میں اوسلو معاہدے کے تحت مغربی کنارے کو ایک سو پینسٹھ فلسطینی کالونیوں اور دو سو تیس اسرائیلی بستیوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ تاہم ان غیرقانونی اسرائیلی بستیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اس کے نتیجے میں فلسطینی اقلیت میں تبدیل ہورہے ہیں۔ مغربی کنارے کی فلسطینی کالونیاں محمود عباس کی قیادت میں پی ایل او کی فلسطین نیشنل اتھارٹی کے زیرتحت ہیں۔