یہ اسرائیل کے دفاع نہیں، خود فریبی کی جنگ ہے، الجزیرہ

کراچی (امت خاص)  اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی نرگسیت اور انتہاپسندی نے اسرائیلیوں کے حماس کیخلاف غصے کو نسل کشی کی مہم میں تبدیل کر دیا ہے، نیتن یاہو ایک دوغلا،جھوٹا اور بیمار ذہنیت کا شخص ہے جس نے اقتدار میں رہنے کیلئے سب کچھ کیا۔الجزیرہ میں شائع مروان بشارۃ کے کالم میں کہا گیا ہے کہ نیتن یاہو کے تکبر، کرپشن اور بے حسی کو ملک کی سیاسی اور فوجی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے جو حماس کے حملوں کا باعث بنیں۔وہ سمجھتا تھا کہ فلسطینی علاقوں پر مستقبل قبضہ کر کے، لاکھوں فلسطینیوں کو غزہ کی کھلی جیل میں قید اور مغربی کنارے میں بنتوستان (جنوبی افریقہ کی نسل پرست ریاست کی جانب سے سیاہ فام لوگوں کیلئے مختص کئے گئے علاقے) بنا کر تمام فلسطینی زمین کو ’’گریٹر اسرائیل‘‘ میں بدل سکتا ہے۔تکبر حماقت کو جنم دیتا ہے۔اپنی ناکامی پر مستعفی ہونے کے بجائے شرمندہ اور بے شرم وزیراعظم نے کسی واضح حکمت عملی اور اختتامی منصوبے کے بغیر ایک افسوسناک جنگ چھیڑ دی۔

اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے لیکن کئی فلسطینی زمین پر دہائیوں سے جاری وحشیانہ فوجی قبضے کا نہیں۔اسرائیل کے نسل پرستانہ نظام کے تحت رہنے والے مقبوضہ علاقے کے فلسطینیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت قابض کیخلاف مزاحمت کا حق حاصل ہے۔نسل کشی کی موجودہ جنگ اپنے دفاع کیلئے نہیں، بلکہ یہ خودفریبی کی جنگ ہے۔ اسرائیل کا یہ یقین جھوٹا ہےکہ وہ تلوار کے ذریعے سلامتی حاصل کر سکتا ہے۔کیا زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کرکے اسرائیل کو کبھی بہتر تحفظ حاصل ہوا؟ کبھی نہیں ہوا، اور نہ ہی کبھی ہوگا۔غزہ کی ناکہ بندی، بمباری اور اب زمینی حملے سے اسرائیل کو خطرناک علاقائی دھچکے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

حماس کے حملے کو سنسنی خیز طریقے سے القاعدہ کے امریکہ پر حملے سے موازنہ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ امریکہ کی دہشت گردی کیخلاف جنگ نے نائن الیون سے زیادہ امریکی شہریوں کو ہلاک کیا،جبکہ اس کے لاکھوں متاثرین مسلمان تھے۔اسرائیلی فوج غزہ میں فلسطینیوں کیخلاف مزید جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے تو اسرائیلیوں کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ استعمار اور قبضے نے انہیں کہاں پہنچا دیا ہے۔ فلسطینیوں پر مسلسل جبر، نسل پرستی اور قتل و غارت نے خطے میں عدم استحکام، انتہاپسندی اور تشدد کے حالات کو جنم دیا ہے۔غزہ پر نسل کشی کی جنگ نہ تو اسرائیلی معاشرے میں امن و سکون لائے گی اور نہ ہی مغرب میں اس کے حامیوں کیلئے۔