امت رپورٹ :
عمران خان کے خلاف سائفر کیس کا فیصلہ نومبر کے آخر میں سنادیا جائے گا۔ جرم ثابت ہونے پر چیئرمین پی ٹی آئی کو سات سال سے چودہ برس تک کی سزا متوقع ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی جو دفعات عمران خان اور شاہ محمود قر یشی پر لگائی گئی ہیں۔ ان میں سزائے موت بھی بنتی ہے۔ اس مقدمہ کے حوالے سے خصوصی عدالت میں ایک مضبوط چالان پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ گواہ بھی بہت تگڑے ہیں۔ اس تناظر میں عمران خان کا سزا سے بچنا بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
واضح رہے کہ خفیہ سرکاری دستاویز سائفر کی معلومات افشا کرنے پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد کی جاچکی ہے۔ خصوصی عدالت نے اگلی سماعت میں سرکاری گواہان طلب کیے ہیں۔
27اکتوبر سے اس کیس کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہو گا جو متوقع طور پر ایک ماہ کے اندر مکمل ہو جائے گا۔ اس کی وجہ چند ماہ پہلے آفیشل سیکرٹس ایکٹ میں ہونے والی ترامیم ہیں۔ جس کے مطابق خصوصی عدالت نے تیس دن کے اندر ٹرائل مکمل کرکے فیصلہ سنانا ہے۔ یوں ستائیسں اکتوبر سے باقاعدہ شروع ہونے والا ٹرائل، ستائیس نومبر تک مکمل ہونے کے واضح امکانات ہیں۔
اگرچہ صدر مملکت عارف علوی نے آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی تردید سے متعلق متنازعہ بیان جاری کیا تھا۔ تاہم نگراں حکومت کی جانب سے آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل کے قانون بننے کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا تھا۔
نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم کا کہنا تھا کہ صدر عارف علوی نے دونوں ایوانوں سے منظور آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹس ایکٹ میں ترامیم پر کوئی راستہ اختیار نہیں کیا۔ لہذا دونوں بلز اب قانون بن چکے ہیں۔ عمران خان کے وکیل نے سا ئفر کیس میں فرد جرم کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ’’ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے‘‘۔ اب کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوگی اور یہ کیس تیزی سے اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھے گا۔
اگر اس مقدمے کے دو درجن سے زائد گواہوں کا ذکر کیا جائے تو ان میں سے تین بہت اہم ہیں۔ ایک امریکہ میں سابق سفیر اسد مجید، دوسرے سابق وزیر اعظم عمران خان کے پر نسپل سیکریٹری اعظم خان اور تیسرے سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود ہیں۔ قانونی ماہرین کے بقول عمران خان کو متوقع سزا دلانے میں ان تینوں کی گواہی کلیدی ہوگی۔ ایف آئی اے کی تفیتشی ٹیم کے سامنے ریکارڈ ان تینوں افراد کے اقبالی بیانات میں یہ بات قدر مشترک ہے کہ ’’عمران خان نے خفیہ سرکاری دستاویز سائفر کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا‘‘۔
یاد رہے کہ سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کبھی عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی تصور کیے جاتے تھے اور انہیں ’’ڈی فیکٹو وزیراعظم‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ اسی طرح امریکا میں سابق پاکستانی سفیر اسد مجید کے بارے میں پی ٹی آئی نے یہ کمپین چلائی تھی کہ وہ ’’ڈٹ گئے‘‘ ہیں اور یہ کہ انہوں نے سائفر سے متعلق عمران خان کے بیانیہ کی توثیق کی ہے۔ لیکن اس پروپیگنڈے کے برعکس اصل حقیقت اسد مجید نے اپنے اقبالی تحریری بیان میں عیاں کر دی۔
اسد مجید نے بتایا کہ انہوں نے اپنے سائفر میں امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو کے حوالے سے ’’سازش‘‘ یا ’’دھمکی‘‘ جیسا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا تھا۔ اور یہ کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے سائفر معاملے پر پروپیگنڈے نے سفارت کاری کی ساکھ کو متاثر کیا۔ یوں عمران خان کو جن پہ تکیہ تھا، ان ہی پتوں نے ہوا دی۔
سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سیکریٹ ایکٹ کی دفعہ پانچ اور نو کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ ان دونوں دفعات کے تحت جرم ثابت ہونے پر سزائے موت، یا دو سے چودہ سال (عمر قید ) کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
اس کیس کے قانونی اور دیگر عوامل پر گہری نظر رکھنے والے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جرم ثابت ہونے پر اگر عمران خان کو سزائے موت نہیں بھی سنائی گئی تو کم از کم سات سے چودہ برس تک کی قید ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ تاکہ فوری ضمانت نہ ہو سکے۔ دو تین برس کی سزا کے خلاف اپیل میں عموماً سزا معطل کرکے ضمانت دے دی جاتی ہے۔
سائفر کیس میں سزا ہو جانے کی صورت میں عمران خان کو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ جانے کا حق ہوگا۔ تاہم بیشتر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے نے انتہائی ٹھوس شواہد اور اہم کے گواہوں کے بیانات پر مشتمل چالان جمع کرایا ہے۔ اس لئے غالب امکان ہے کہ خصوصی عدالت کی جانب سے ایک ایسا مضبوط فیصلہ سنایا جائے گا کہ ملزمان کو ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے ریلیف ملنے کے چانسنز محدود ہو جائیں گے۔
واضح رہے کہ پیر کو خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی جانب سے پڑھی گئی چارج شیٹ میں کہا گیا تھا کہ ’’عمران خان نے سائفر کو غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھا اور اسے لے کر غلط بیانیہ بنایا۔ مذکورہ معلومات ٹاپ سیکرٹ انفارمیشن سے متعلق تھی جو دو ریاستوں یعنی امریکا اور پاکستان کے درمیان تھیں۔
پی ٹی آئی سربراہ نے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے ایک ممنوعہ جگہ (جلسہ) میں سائفر کا استعمال کیا اور خفیہ معلومات کو جان بوجھ کر غیر مجاز افراد تک پہنچایا، جو ریاست پاکستان کے مفاد کے خلاف عمل تھا۔ یہ سائفر وزارت خارجہ کی طرف سے آپ (عمران) پر اعتماد کرتے ہوئے دیا گیا تھا، لیکن آپ نے اسے اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے فائدے کے لیے استعمال کیا اور پاکستان کے سائفر اور سیکورٹی نظام سے سمجھوتہ کیا‘‘۔
چارج شیٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’عمران خان نے اٹھائیسں مارچ دو ہزار بائیس کو اپنی بنی گالہ رہائش گاہ میں ہونے والی ایک میٹنگ کے دوران سائفر کے مواد کا غلط استعمال کرنے کی سازش تیار کی۔ سائفر کو اپنے پاس رکھا اور اسے کبھی وزارت خارجہ کو واپس نہیں کیا۔ جبکہ شاہ محمود قریشی نے عمران کی مدد اور حوصلہ افزائی کی‘‘۔