علی جبران :
خبطی انقلابی عمران خان نے نہ صرف ملک کی نوجوان نسل کے ایک حصے کو گمراہ کر کے نو مئی جیسا سانحہ کرایا۔ بلکہ اپنے خاندان کے کئی نوجوانوں کا مستقبل بھی دائو پر لگا دیا۔ جبکہ ان نوجوانوں کے اہل خانہ کو اپنی زندگی کے تلخ ترین دور سے گزرنا پڑ رہا ہے۔
عمران خان کے قریبی عزیزوں میں سے ایک نے خاندان پر بیتنے والی روداد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ حسان نیازی تو گرفتار ہو چکا اور اس کے والدین اپنے بیرسٹر بیٹے کے مستقبل کے بارے میں انتہائی فکر مند ہیں۔ خاندان کے کئی اور نوجوانوں کے اہل خانہ کو بھی اسی نوعیت کی صورت حال کا سامنا ہے۔
ان میں چیئرمین پی ٹی آئی کے دیگر بھانجے، بھتیجے اور ایک فرسٹ کزن شامل ہے۔ یہ تمام سانحہ نو مئی کے حوالے سے مطلوب ہیں۔ ابھی قانون کی گرفت میں نہیں آسکے اور روپوش ہیں۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے حسان نیازی کی ڈرامائی گرفتاری اور اس کے والدین کی کیفیت کا ذکر کرتے چلیں۔
یاد رہے کہ حسان نیازی سانحہ نو مئی کے مطلوب ترین ملزمان میں شامل تھا۔ لیکن پولیس کے ہاتھ نہیں آرہا تھا۔ آخر کار پکڑا گیا اور اس وقت فوج کی تحویل میں ہے۔ یہ گرفتاری کیسے عمل میں آئی؟ اس کی تفصیل بڑی دلچسپ ہے۔
قابل اعتماد ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سانحہ نو مئی کے بعد حسان نیازی اپنے سسرال میں جا چھپا تھا۔ حسان نیازی کی شادی اپنے ایک دور کے رشتہ دار اوگی کے رہائشی وجیہ الرحمن کی صاحبزادی سے ہوئی تھی۔ اوگی خیبرپختونخوا کے ضلع مانسہرہ کا ایک قصبہ ہے۔ روپوشی کے ابتدائی دن حسان نیازی نے وہیں اپنے سسرال میں گزارے۔ کچھ عرصہ بعد اسے شک گزرا کہ اس کا یہ ٹھکانہ نظروں میں آگیا ہے۔
اس پر سسرالی بھی پریشان ہوگئے۔ چنانچہ حسان نیازی ایبٹ آباد میں اپنے ایک اور عزیز کے گھر منتقل ہوگیا۔ جو پی ایم اے کاکول اکیڈمی کی قریبی آبادی میں ہے۔ پی ایم اے کاکول میں کسی تقریب سے پہلے سیکورٹی نقطہ نظر سے قریبی آبادیوں میں عموماً کومبنگ آپریشن ہوتے رہتے ہیں۔ ایک دن ایسے ہی ایک کومبنگ آپریشن کے دوران جب سیکورٹی اہلکار گھر گھر کی تلاشی اور مکینوں کا ڈیٹا لے رہے تھے تو وہ اس مکان پر بھی پہنچے۔ جہاں حسان نیازی نے پناہ لے رکھی تھی۔ معلومات پر چوکیدار نے بتایا کہ ’’صاحب تو نہیں ہیں۔ لیکن گھر میں لاہور سے آئے کچھ مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں‘‘۔ جب مہمانوں کی شناخت کی گئی تو ان میں سے ایک حسان نیازی نکلا۔
حسان نیازی کے ایک قریبی رشتہ دار نے بتایا کہ ’’میں اسے سمجھانے کی بہت کوشش کیا کرتا تھا کہ وہ جس راستے پر چل رہا ہے، اسے ترک کر دے۔ میں اسے کہتا کہ بندہ کسی اعلیٰ مقصد کے لئے لڑرہا ہو تو الگ بات ہے۔ لیکن کسی ایسے شخص کے لئے اپنا مستقبل دائو پر لگانا کہاں کی دانشمندی ہے جو محض اقتدار ہوس کی خاطر اپنے پیروکاروں کو اندھے کنویں میں دھکیل رہا ہو۔ لیکن ملک کے دیگر نوجوانوں کی طرح حسان نیازی کی بھی اس قدر برین واشنگ ہوچکی تھی کہ اس نے میری کسی نصیحت پر کان نہیں دھرا۔ بلکہ میری ڈانٹ ڈپٹ بڑھی تو اس نے میری فون کال ریسیو کرنا ہی چھوڑدیا تھا‘‘۔
حسان نیازی کے قریبی رشتہ دار کے بقول اپنے ماموں (عمران خان) کے گمراہ کن پروپیگنڈے میں آکر لندن سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے جواں سال وکیل کو اب سنگین مقدمے کا سامنا ہے ۔ کچھ نہیں پتہ کہ مستقبل کیا ہوگا۔ دوسری اس کے والدین الگ کرب سے گزر رہے ہیں۔ قریبی رشتہ دار کا کہنا تھا ’’حسان نیازی کی والدہ دو دو دن تک کھانا نہیں کھاتی اور نیند کے لئے اسے خواب آور گولیاں لینی پڑتی ہیں۔ حسان نیازی کے والد حفیظ اللہ نیازی اور ان کی والدہ کے مابین تعلقات پچھلے کئی برسوں سے منقطع ہیں۔ دونوں ایک گھر میں بھی نہیں رہتے‘‘۔
عمران خان کے دیگر دو قریبی عزیز زبیر نیازی اور احمد نیازی بھی کور کمانڈر ہائوس (جناح ہائوس) پر حملے کے وقت بہت متحرک تھے۔ زبیر نیازی پی ٹی آئی لاہور کا جنرل سیکریٹری ہے۔ عدالت نے جناح ہائوس حملہ کیس میں پی ٹی آئی کے جن رہنمائوں کو اشتہاری قرار دیا ہے۔ ان میں زبیر نیازی بھی شامل ہے۔ عمران خان کا بھتیجا احمد نیازی بھی سانحہ نو مئی کے حوالے سے مطلوب ہے۔ اسے عمران خان نے بطور وزیر اعظم اپنا کوآرڈی نیٹر مقرر کر رکھا تھا۔
زبیر نیازی اور احمد خان نیازی دونوں اس وقت مفرور ہیں۔ کیونکہ ابھی پکڑے نہیں گئے۔ اس لئے ٹویٹر پر ان کا ’’انقلاب‘‘ جاری ہے۔ پکڑے جانے کے بعد ہی ’’انقلاب‘‘ ایک انٹرویو یا پریس کانفرنس میں بہہ جاتا ہے۔ عمران خان کے ایک فرسٹ کزن کے دو بھانجے بھی سانحہ نو مئی میں مطلوب ہیں اور تاحال روپوش ہیں۔ اسی طرح عمران خان کا ایک اور فرسٹ کزن عرفان اللہ نیازی بھی نو مئی کے واقعات کے حوالے سے مطلوب ہے اور ابھی تک ہاتھ نہیں لگ سکا ہے۔
عرفان اللہ نیازی پہلے نون لیگ میں تھا۔ تاہم چند برس پہلے عمران خان کے ’’حقیقی آزادی‘‘ کے نعرے سے متاثر ہوکر تحریک انصاف میں چلا گیا تھا۔ عمران خان نے عرفان اللہ نیازی کو جولائی دو ہزار بائیس میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر بھکر سے ضمنی الیکشن لڑا کر پنجاب اسمبلی میں پہنچایا تھا۔