امت رپورٹ :
اسرائیل نے بربریت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ مقبوضہ فلسطین میں سول سوسائٹی کی تنظیم ’’ڈیفنس فار چلڈرن‘‘ کے مطابق سات اکتوبر سے اب تک غزہ پر صیہونی حکومت کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں تین ہزار تین سو چوبیس بچے شہید ہوچکے ہیں۔ ایک ہزار ملبے تلے دبے ہیں۔ بمباری سے مجموعی آٹھ ہزار افراد میں سے چالیس فیصد بچے ہیں۔
سیو دی چلڈرن انٹرنیشنل‘‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صرف تین ہفتوں کے دوران غزہ میں شہید بچوں کی تعداد دو ہزار انیس سے اب تک دنیا کے تنازعات والے علاقوں میں ہلاک بچوں کی سالانہ تعداد سے زیادہ ہے۔ غزہ اور اسرائیل کی وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر سے اب تک غزہ پر اسرائیلی بمباری سے جہاں تین ہزار تین سو چوبیس بچے شہید ہوچکے ہیں۔ وہیں مغربی کنارے پر بھی چالیس کے قریب فلسطینی بچوں کو اسرائیلی فورسز اور یہودی آبادکاروں نے موت کے گھاٹ اتارا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
غزہ کے علاوہ بھی اسرائیلی فورسز دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینی بچوں اور نوعمر لڑکوں کو نشانہ بنارہی ہیں۔ پیر کی صبح اسرائیلی فورسز نے جنین پناہ گزین کیمپ میں ایک سولہ سالہ فلسطینی خالد موسیٰ کو ڈرون سے فائر کر کے شہید کردیا۔ اسی طرح چند روز پہلے بھی جنین میں اسرائیلی اسنیپر نے ایک سولہ سالہ فلسطینی جواد عبدالسلام کو گولی مارکر شہید کردیا تھا۔
غزہ میں بمباری کے نتیجے میں چونکہ ایک ہزار سے زائد بچے تاحال ملبے میں دبے ہوئے ہیں۔ اس لئے اصل ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں سیو دی چلڈرن کے کنٹری ڈائریکٹر جیسن لی نے کہا ہے کہ ’’تین ہفتوں کے تشدد میں بچوں کو خاندانوں سے الگ کردیا ہے اور ان کی زندگی کو ناقابل تصور المیہ سے دو چار کیا ہے۔ اس وقت غزہ میں تشدد نہ صرف جاری ہے بلکہ پھیل رہا ہے۔ مزید ہزاروں بچوں کی جان شدید خطرے میں ہے۔ ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کا واحد راستہ جنگ بندی ہے۔
عالمی برادری کو ہر روزکے بحث و مباحثے کے بجائے عملی طور پر اس حوالے سے کردار ادا کرنا چاہیے۔ خاص طور پر اسپتالوں میں زیر علاج زخمی بچوں کی حفاظت ضروری ہے۔ سیو دی چلڈرن کو اس بات پر بھی سخت تشویش ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں زمینی آپریشن کے نتیجے میں مزید بڑے پیمانے پر بچوں کی ہلاکتیں ہوں گی‘‘۔
غزہ میں کم از کم سات ہزار فلسطینی بچے زخمی ہیں۔ اسی طرح مغربی کنارے میں یہ تعداد ایک سو اسّی کے قریب ہے۔ زخمی بچوں میں سے اکثریت کی ہلاکت کا شدید خطرہ ہے۔ کیونکہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی کے ایک تہائی اسپتال بجلی کی کٹوتی اور اسرائیلی حکومت کی جانب سے مکمل محاصرے کی وجہ سے کام نہیں کر رہے ہیں۔ ایندھن اور اینستھیزیا دوا کی کمی کے سبب بچوں کو بے ہوش کیے بغیر ان کے آپریشن کرنے پڑرہے ہیں۔
غزہ میں سیو دی چلڈرن عملے کے ایک رکن کی بیٹی سولہ سالہ لینا نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہر لمحہ بمباری کی مسلسل آوازیں ہیں اور کھانے پینے کی اشیا ختم ہوچکی ہیں۔ بچے ان تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہو چکے ہیں، انہیں زندہ رہنے کیلیے جس کی ضرورت ہے۔
غزہ میں اب تک بے گھر ہونے والے لوگوں کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ان میں بڑی تعداد بچوں کی ہے، جن کی زندگیاں مسلسل خطرے میں ہیں۔
سات اکتوبر کے بعد سے لے کر اب تک غزہ کی پٹی پر اسرائیل اٹھارہ ہزار ٹن سے زیادہ بارود برسا چکا ہے۔ جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ غزہ کی پٹی کے اندر ہر کلومیٹر کے فاصلے پر تقریباً پچاس ٹن دھماکہ خیز مواد ملاہے۔ اب تک اسرائیلی طیارے ساٹھ سے زائد ہیلتھ کیئر کی عمارتوں پر بمباری کرچکا ہے۔ دس لاکھ کے قریب بچے صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔