قیصر چوہان :
پی سی بی میں اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں۔ ذکا اشرف کے آنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ عملی طور پر دو گروپ میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ایک گروپ کو اپنی بر طرفی کا خوف لاحق ہے۔ جبکہ دوسرے گروپ میں ذکا اشرف کے دور میں تعینات ہونے والے افسران ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ذکا اشرف کے حمایت یافتہ انضمام الحق کا اسیکنڈل لیک کرنے میں سابق چیئرمین نجم سیٹھی کے حامی افسران کا ہاتھ تھا۔ جنہوں نے ایک مقامی صحافی کے ذریعے اس اسکینڈل کے حوالے سے مکمل تفیصلات فراہم کرکے انضمام الحق کی دو نمبری میڈیا میں افشا کی۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ فریقین کے درمیان معاوضہ کا معاملہ طے کرنے پر انضمام الحق نے اپنا کمیشن بھی علیحدہ حاصل کیا ہے۔ یازو نامی نجی ایجنٹ کمپنی سے ذکا اشرف بخوبی آگاہ تھے۔ تاہم انہوں نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔
ذرائع کے مطابق ورلڈکپ اسکواڈ میں شامل چند کھلاڑیوں اور ٹیم انتظامیہ کے بعض آفیشلز کا کردار مشکوک ہے اور آئندہ آنے والوں دنوں میں مزید اسکینڈل سامنے کی توقع کی جارہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ذکا اشرف کو لانے والی سیاسی پارٹی کے سربراہ کی جانب سے انہیں چند اہم عہدوں پر نئے بھرتیوں کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ قومی ٹیم میں سندھ کے کھلاڑیوں کا کوٹہ رکھنے کا بھی کہا گیا ہے۔
اسی وجہ سے سرفراز احمد اور نعمان علی کو کنٹریکٹ میں شامل کیا گیا۔ جبکہ سرفراز کو ڈی سے بی کیگٹری میں لانے میں بھی ذکا اشرف کی ہدایت شامل ہے۔ ورلڈکپ کے بعد قومی ٹیم میں بڑی تبدیلی کے ساتھ پی سی بی میں کئی عرصوں سے براجمان افسران کے قدم اکھاڑنے کا بھی پلان بنایا گیا ہے۔ تاہم دوسرا گروپ ذکا اشرف کی پول پیٹاں کھولنے کیلئے سرگرم ہے۔ ذکا اشرف اور بابر اعظم کے درمیان واٹس ایپ گفتگو کا اسکرین شاٹس کا لیک ہونا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ ذکا اشرف، سی ای او سلمان نصیر اور ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ عثمان واہلہ جیسے بااثر افسران پر ہاتھ ڈالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ تاہم یہ کوشش بیک فائر ہوچکی ہے۔ کیونکہ اس گروپ کو سابق کرکٹرز کی ایک بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے۔ جو مسلسل ذکا اشرف کا میڈیا ٹرائل کرنے میں مصروف ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انضما الحق کا اب بچنا مشکل ہے۔ کیونکہ ذکا اشرف بھی اب ان پر دہرا معیار اور گمراہ کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی انکوائری کمیٹی نے سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ بورڈ کی پانچ رکنی کمیٹی میں اینٹی کرپشن اینڈ ویجیلنس یونٹ کے کرنل خالد، کرنل اختر، ڈائریکٹر میڈیا عالیہ رشید، لیگل ڈیپارٹمنٹ کے نمائندے اور آڈیٹر فنانس شامل ہیں۔ انکوائری کمیٹی 5 روز میں اپنی رپورٹ پی سی بی کے حوالے کرے گی۔
اس حوالے سے جب ’’امت‘‘ نے انضمام الحق سے رابطہ کیا تو انہوں نے کیس انڈر ٹرائل ہونے کا جواز پیش کرکے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ انضمام الحق بطور چیف سلیکٹر اپنے سابقہ دور میں بھی ’’مفادات کے ٹکراؤ‘‘ کی زد میں آ چکے ہیں۔ اس وقت انہوں نے ٹی 10 لیگ کی ٹیم خریدی تھی۔ انضمام الحق کو 2007ء میں ریٹائر ہونے پر پی سی بی نے ایک کروڑ روپے نقد دیے تھے۔ پھر وہ باغی انڈین کرکٹ لیگ سے منسلک ہوگئے۔ جو میچ فکسنگ تنازعات کی وجہ سے چل نہیں سکی۔
2017ء میں انضمام کو 14 لاکھ روپے ماہانہ پر قومی کرکٹ چیف سلیکٹر کی ملازمت مل گئی۔ چیمپئنز ٹرافی کی کامیابی پر گھر بیٹھے ایک کروڑ روپے کا انعام بھی ملا۔ اس وقت انہوں نے ٹی ٹین لیگ میں اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ایک ٹیم خرید لی۔ اس کا آفیشل پریس ریلیز بھی سامنے آگیا ہے۔