محمد علی :
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو ایک ماہ ہوگیا۔ مسلسل بمباری سے شہر کا انفرااسٹرکچر بربادی کی تصویر بن گیا ہے۔ 2 لاکھ رہائشی یونٹس کو نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ 32 ہزار گھر مکمل تباہ ہوگئے ہیں۔ سر سے چھت چھن جانے کے سبب غزہ کی نصف آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ جو اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپوں یا شیلٹر ہومز میں بے سروسامانی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان شیلٹرز میں گنجائش سے کئی گنا زیادہ لوگ موجود ہیں۔
اسرائیل کے فضائی حملوں میں 54 مساجد شہید کی جا چکی ہیں۔ درجنوں اسکولوں سمیت 12 اسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ گزشتہ روز اسرائیل نے ایک بار پھر جبالیا کیمپ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام چلنے والے الفخروہ اسکول میں خواتین اور بچوں کو خون میں نہلا دیا۔ اس حملے میں متعدد بچوں سمیت 15 شہادتیں رپورٹ ہو چکی ہیں۔ جبکہ درجن سے زائد زخمی ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ یہ صرف ایک کمرے پر مشتمل اسکول تھا، جس میں بچوں اور خواتین کو محفوظ پناہ کیلئے ٹھہرایا گیا تھا۔ اسی طرح غزہ کے علاقے منصورہ میں ایک گھر پر بم داغ دیئے گئے۔ اس حملے میں بھی خواتین اور بچے اسرائیلی درندگی کی بھینٹ چڑھے ہیں، جس کی منظر عام پر آنے والی تصاویر نے ہر آنکھ کو نم کر دیا ہے۔ ادھر رفاہ کے علاقے میں پانی سپلائی کرنے والے ایک ٹینک کو نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ اسرائیلی فوج کی طرف سے نشانہ بننے کے بعد رفاہ کے ساحل پر ماہی گیری کی کشتیاں جل گئیں۔
اسی طرح غزہ میں قائم واحد یونیورٹی جامعہ الازہر بھی بمباری میں اڑا دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 231 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں، جس کے بعد شہادتوں کی تعداد 9 ہزار 488 ہوگئی ہے۔ شہدا میں بچوں کی تعداد 3 ہزار 900 سے بڑھ گئی ہے۔ جبکہ اب تک 2 ہزار 509 خواتین بھی اسرائیلی سفاکیت کا نشانہ بن چکی ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے غزہ کو قبرستان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہزاروں لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، جن کی زندگی کے آثار ختم ہو رہے ہیں کیونکہ اس نفسا نفی کے عالم میں کوئی ریسکیو کارروائی نہیں ہو رہی۔ غزہ کے مظلوم عوام یا ملبے تلے دبے افراد کے رشتے دار اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ 25 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہیں، جو مختلف مقامات پر زیر علاج ہیں یا اس سہولت سے محروم ہیں۔ غزہ میں انسانی المیے کے انتہائی دلخراش مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ گاڑیوں میں ایندھن نہ ہونے کے باعث زخمیوں کو گدھا گاڑی اور گھوڑوں پر ٹھیلے باندھ کر اسپتالوں اور طبی مراکز منتقل کیا جا رہا ہے۔
ادھر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے غزہ کو ایک کھلا قبرستان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پناہ گزین کیمپوں سمیت مختلف مقامات پر لاشیں بکھری ہوئی ہیں۔ غزہ میں زندگی اور موت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ جہاں کہیں لوگوں کا مجمع نظر آتا ہے اسرائیل اس پر بمباری کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ کی پٹی پر لگ بھگ تمام بیکریوں نے کام بند کر دیا ہے، کیونکہ انہیں بمباری کا خدشہ ہے۔ لوگ صرف ایک ڈبل روٹی کیلئے کئی کئی گھنٹوں قطاروں میں لگنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ اشیائے خورونوش کی خریداری کیلئے مارکیٹیں بھی صرف ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کیلئے کھلتی ہیں۔
اسی طرح مارکیٹوں میں سامان اور پانی کے کین وغیرہ بھی گدھوں پر لاد کر منتقل کئے جارہے ہیں۔ غزہ میں 35 میں سے 14 اسپتال ایندھن کی عدم فراہمی، ناکافی وسائل اور ادویات نہ ہونے کے باعث غیر فعال ہیں۔ جبکہ باقی اسپتال بھی بندش کے دہانے پر ہیں۔ جبکہ 72 میں سے 51 کلینک بھی بند ہوگئے ہیں۔ گزشتہ روز فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کا دفتر بھی اسرائیلی بمباری کی زد میں آگیا۔