علی جبران : دوسرا اور آخری حصہ
دو ہزار تیرہ سے دو ہزار اٹھارہ تک بطور اسپیکر خیبرپختونخواہ اسمبلی اسد قیصر کا پانچ سالہ دور کرپشن کی غضب کہانی تھا۔ اس عرصے میں انہوں نے نہ صرف صوبائی اسمبلی سیکریٹریٹ میں اپنے منظور نظر افراد اور پیسوں کے عوض بھرتیاں کیں۔ بلکہ صوبائی اور ضلعی محکمہ تعلیم میں بھی غیرقانونی بھرتیوں کی بھرمار کر دی۔
میرٹ کا قتل کر کے پیسوں کے عوض سینکڑوں لوگوں کو رکھا گیا۔ خاص طور پرگجو خان میڈیکل کالج، صوابی میڈیکل کالج، وومین یونیورسٹی صوابی اور صوابی یونیورسٹی کے وائس چانسلرز پر دبائو ڈال کر درجنوں افراد کو غیرقانونی طور پر بھرتی کرایاگیا اور ٹھیک ٹھاک مال بٹورا گیا۔ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں صرف غیرقانونی بھرتیاں نہیں کرائی گئیں۔ بلکہ گجو خان میڈیکل کالج میں طبی آلات کی خریداری میں ہیرا پھیری کر کے تجوری بھری گئی۔ جبکہ صوبائی محکمہ صحت، محکمہ آبپاشی اور ڈی سی آفس میں بھی اسد قیصر نے بطور اسپیکر صوبائی اسمبلی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پیسوں کے عوض غیرقانونی بھرتیاں کرائیں۔
اس کرپشن کے ایک عینی شاہد اور اس وقت پی ٹی آئی کے اہم مقامی عہدیدار بتاتے ہیں ’’بطور اسپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر نے ہر وہ کام کیا، جس سے پیسے کمائے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے بھاری کمیشن کے عوض صوبے میں ٹھیکے بیچے۔ صوابی اسپورٹس کمپلیکس، صوابی پارک اور صوابی میں سڑکوں کی تعمیر سمیت دیگر ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن کر کے کروڑوں روپے کمائے۔ حتیٰ کہ اس کھلم کھلا لوٹ مار پر پارٹی کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں۔ پارٹی کے ایک ضلعی عہدیدار نے اسد قیصر اور اس کے ساتھیوں کی کرپشن کو لے کر پارٹی قیادت کو ایک خط لکھا جس میں پچیس سوالوں کے جواب مانگے گئے تھے۔ لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
آخرکار اس پارٹی عہدیدار نے نیب کو بھی اس حوالے سے اوپر تلے دو خط لکھ ڈالے اور تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔ لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کسی نے نہیں سنی۔ اب کہیں جاکر صرف محکمہ تعلیم میں غیرقانونی بھرتیوں کے اسکینڈل میں اسد قیصر کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم کرپشن کی داستان بڑی طویل ہے۔ اس سلسلے میں جولائی میں صوابی سٹی پولیس اسٹیشن میں اسد قیصر، سابق صوبائی وزیر تعلیم شہرام خان تراکئی، اسد قیصر کے بھائی سابق ایم پی اے عاقب اللہ خان سمیت دیگر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا‘‘۔
اسد قیصر کو قریب سے جاننے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ دو ہزار تیرہ سے دو ہزار اٹھارہ تک صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کے طور پر اپنے پانچ سالہ دور میں ہی اسد قیصر نے اتنا کما لیا تھا کہ انہیں ارب پتیوں کے کلب میں شامل کیا جا سکتا تھا۔ اس لوٹ مار کا مزید موقع انہیں اس وقت ملا جب وہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے بعد قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے۔ اس اہم اور پروقار منصب پر بیٹھ کر بھی انہوں نے دبا کر نوکریاں بیچیں اور اپنے منظور نظر افراد کو قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں خلاف ضابطہ بھرتی کرایا۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ بھرتیاں دو سو ساٹھ سے زائد تھیں۔ ان بھرتیوں میں اقربا پروری کی بدترین مثال قائم کی گئی۔ مثلاً اسد قیصر نے اپنے چھوٹے بھائی عاقب اللہ کے سالے ارشاد کو پروٹوکول افسر بھرتی کرایا۔ پی ٹی آئی کے میڈیا کوآرڈینیٹر چوہدری رضوان کو بھاری معاوضے پر اپنا ایڈوائزر رکھ لیا۔ نابینائوں کے کوٹے میں بھی اپنے حلقے کے لوگوں کی خلاف ضابطہ بھرتیاں کیں۔ اسد قیصر کی جانب سے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں بھرتی کیے گئے بیشتر افسران گھر بیٹھ کر تنخواہیں لیا کرتے تھے۔ پی آئی اے کے ایک سابق ملازم وقار شاہ کو ڈی جی پارلیمنٹری سروسز میں گریڈ 20 کا افسر تعینات کیا۔ تحریک عدم اعتماد سے ایک دن پہلے اسد قیصر نے اپنے من پسند 9 افراد کو گریڈ بیس سے گریڈ اکیس میں خلاف ضابطہ ترقی دی۔ جبکہ گریڈ ایک کے ملازم کو گریڈ 9 دے دیا۔
پی ٹی آئی کے گھر کے بھیدیوں میں سے ایک کے بقول ’’اسد قیصر نے آپ کی سوچ سے بڑھ کر ناجائز پیسہ کمایا۔ یہ رقم اربوں روپے سے بھی زیادہ ہے۔ اس کرپشن میں اس کے بھائیوں عاقب اللہ، عدنان خان اور وحید خان کے علاوہ دیگر فرنٹ مین بھی شامل ہیں۔ اسد قیصر کا بھائی وحید خان اس وقت انگلینڈ میں بیٹھا ہے اور وہاں سارے معاملات دیکھتا ہے۔کیونکہ ناجائز پیسے سے بنائے گئے اثاثوں کا سلسلہ اب دبئی، ملائیشیا اور برطانیہ تک پھیلا ہوا ہے۔
اسد قیصر نے اپنے فرنٹ مینوں کے ساتھ مل کر حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے بے تحاشا پیسہ بیرون ملک بھیجا۔ یہ ناجائز کمائی بیرون ملک کے اکائونٹس میں پڑی ہے۔ اسد قیصر کے فرنٹ مینوں میں مظہر، عاصم، وقار، زبیر اور اس کے بھائی شامل ہیں۔ ان میں سے ایک مظہر کبھی خیبرپختونخواہ اسمبلی میں ڈرائیور ہوا کرتا تھا۔ پھر وہ اسد قیصر کی آشیرباد سے واپڈا کا فوکل پرسن لگ گیا۔ اس نے کرپشن کے ذریعے اس قدر پیسہ کمایا کہ اس وقت برطانیہ میں اس کی ایک بڑی ورکشاپ ہے‘‘۔
اسد قیصر ’’قائداعظم گروپ آف اسکولز اینڈ کالجز‘‘ کے نام سے تعلیمی اداروں کی ایک چین بھی چلا رہے ہیں۔ اس کی روداد بھی بڑی دلچسپ ہے۔ دو ہزار سات آٹھ میں جب انہیں پی ٹی آئی خیبرپختونخواہ کا صدر بنایا گیا تو وہ قلاش تھے۔ انہوں نے اپنے ایک ماموں مطلوب احمد سے رقم ادھار لے کر اس اسکول گروپ کے کچھ شیئر خریدے۔ مطلوب احمد ایک بینک میں ملازم تھے۔ مشرف دور میں انہوں نے گولڈن ہینڈ شیک لے لیا تھا۔ اس مد میں انہیں پینتالیس لاکھ روپے ملے۔ اسکولوں کے معاملے میں مظہر اور شہید احمد بھی اسد قیصر کے پارٹنر تھے۔ تاہم جب اسد قیصر نے اسپیکر صوبائی اسمبلی بن کر اثرورسوخ حاصل کر لیا اور کرپشن کے ذریعے بے تحاشا پیسہ بھی کمانے لگے تو انہوں نے اپنے ان دونوں پارٹنرز کو سائیڈ کر دیا۔ ساتھ ہی اسکولز گروپ میں ان کے شیئر بھی بڑھنا شروع ہو گئے۔
پہلے اس گروپ کے صرف صوابی میں چند کیمپس تھے۔ پھر خیبرپختوخواہ کے مختلف شہروں میں شاخیں کھل گئیں۔ اس وقت ’’قائداعظم گروپ آف اسکولز اینڈ کالجز‘‘ کے پشاور، صوابی، مردان، نوشہرہ، ایبٹ آباد، اسلام آباد اور دبئی میں بھی کیمپس ہیں۔ اس گروپ کی توسیع اور ترقی زیادہ تر اسد قیصر کے اسپیکر صوبائی اسمبلی والے دور میں ہوئی۔ اس دور میں انہوں نے پشاور میں اپنے ایک اسکول کیلیے اراضی بھی لیز کرائی۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے ماموں مطلوب احمد اس گروپ میں اب پچاس فیصد شیئر کے مالک ہیں۔