عمران خان :
بھارت سے براہ راست تجارتی پابندیوں کے دوران بعض کمپنیوں کی جانب سے بھارتی مصنوعات دبئی منگواکر ان کی پیکنگ تبدیل کر کے پاکستان درآمد کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی نے خفیہ اطلاعات ملنے پر بھارت سے سامان دبئی کے راستے پاکستان درآمد کرنے والے نیٹ ورک کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ تفتیش میں درآمد کنندگان اور ان کے ایجنٹوں کے ساتھ ساتھ اپریزمنٹ کے متعلقہ افسران اور لیبارٹری اہلکاروں کو بھی شامل تفتیش کرلیا گیا ہے۔
ملوث مقامی کمپنیاں ماڈل کسٹمز کلکٹریٹس اپریزمنٹ میں موجود بعض سہولت کاروں کی مدد سے نہ صرف کروڑوں روپے کا قیمتی زرمبادلہ بھارت منتقل کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ بلکہ خطرناک پیسٹی سائیڈ کھاد کی آڑ میں جعل سازی سے پاکستان درآمد کر کے مقامی فصلوں کو زہر آلود کرنے کے ساتھ ساتھ زمینوں کی زرخیزی کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کی جانب سے دی جانے والی اطلاعات کی روشنی میں کسٹمز انٹیلی جنس کراچی نے مقامی سطح پر سرگرم ایک ایسے نیٹ ورک کا سراغ لگا لیا ہے۔ جو گزشتہ عرصے میں بھارتی کمپنیوں سے سلفر 80(WDG) پیسٹی سائیڈز یعنی کیڑے مار اور فاضل جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی ادویات بھاری مقدار میں کھاد ظاہر کر کے پاکستان درآمد کر چکی ہیں۔
تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ اس نیٹ ورک کے کارندوں نے دبئی میں ایک سیٹ اپ قائم کر رکھا ہے۔ جس کے تحت پاکستان میں رجسٹرڈ بعض کمپنیوں کو استعمال کر کے دبئی سے فرٹیلائزر کے نام پر پیسٹی سائیڈز کراچی کی بندرگاہوں پر بھجوایا جاتا ہے اور اس زہریلی ’’کھاد‘‘ کو ماڈل کسٹمز اپریزمنٹ کے کلکٹریٹس سے کلیئر کرواکر مقامی مارکیٹوں میں سپلائی کر دیا جاتا ہے۔
اسی سیٹ اپ کے تحت پہلے بھارت میں موجود کمپنیوں سے یہ پیسٹی سائیڈ دبئی میں منگوایا جاتا ہے۔ جس کے لئے رقوم مقامی ڈیلرز اور تاجر حوالہ ہنڈی کے ذریعے دبئی بھجواتے ہیں اور یہی رقوم ڈالرز اور درہم کی صورت میں بھارتی کمپنیوں کو سامان کی کھیپ دبئی بھجوانے کے عوض ادا کردی جاتی ہے۔ بعد ازاں بھارت سے آنے والی پیسٹی سائیڈز کی ان کھیپوں کو دبئی میں موجود گوداموں میں رکھ کر ان کی پیکنگ وغیرہ تبدیل کروائی جاتی ہے اور پھر دبئی سے فرضی ایکسپورٹرز کمپنیوں کے نام یہ سامان پاکستانی درآمد کنندگان کو بھجوا دیا جاتا ہے۔
کسٹمز انٹیلی جنس کی تحقیقات میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ان وارداتوں کے لئے طویل عرصہ سے جو جعلسازیاں کی جا رہی ہیں۔ ان میں وفاقی محکمہ تحفظ خوراک (نیشنل فوڈ سکیورٹی) کے ماتحت ادارے پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے قوانین کی بھی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔ محکمہ پلانٹ اینڈ پروٹیکشن کے قوانین کے تحت ملک میں کوئی بھی ایسی پیسٹی سائیڈز (کیڑے مار ادویات) در آمد نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی بنا کر بیچی جاسکتی ہے۔ جس کو پہلے سے رجسٹرڈ کرواکر این او سی حاصل نہ کی گئی ہو۔ اس پروسس میں لیبارٹری ٹیسٹ اور دیگر چھان بین کے بعد ہی پیسٹی سائیڈز کی درآمد کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ جبکہ فرٹیلائزر یعنی کھاد کی درآمد کے لئے ایسی کسی بھی اجازت یا این او سی کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
تحقیقات کے مطابق اس خلاف ورزی کے ساتھ ہی ایک اور جرم یہ کیا جا رہا ہے کہ بھارت سے سامان کی درآمد پر حکومت کی جانب سے پابندی عائد ہے۔ تاہم یہ نیٹ ورک محکمہ کسٹمز کی آنکھوں میں دھول جھونک کر راستہ تبدیل کر کے بھارتی مصنوعات درآمد کر رہا ہے۔ جو کہ اسمگلنگ اور جعلسازی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس دھندے کے عوض بھاری زر مبادلہ غیر قانونی طریقے سے بھارتی کمپنیوں کو فراہم کیا جا رہا ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق حالیہ دنوں میں کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کی ٹیم کی جانب سے ڈائریکٹر انجینئر حبیب کی ہدایات پر کراچی بندرگاہ پر دبئی سے آنے والی میسرز احمد اینڈ احمد نامی درآمدکنندہ کی کھیپ کو خفیہ اطلاع ملنے پر بلاک کر کے چھان بین شروع کی گئی۔ یہ کھیپ کھاد ظاہر کر کے کلیئر کروائی جا رہی تھی۔ تاہم جب اس کے نمونے حاصل کر کے لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا گیا تو یہ فرٹیلائزر کے بجائے سلفر 80(WDG) پیسٹی سائیڈز یعنی کیڑے مارکیمیکل ثابت ہوا۔ چونکہ اس کی درآمد پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کی این او سی سے مشروط ہوتی ہے۔ اس لئے کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کی جانب سے پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کو مراسلہ ارسال کرکے تصدیق کی گئی۔ جس پر جوابی مراسلے میں پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ یہ کیمیکل کھاد نہیں، بلکہ پیسٹی سائیڈ ہے اور ادارے سے اسے درآمد کرنے کے لئے کوئی اجازت نامہ نہیں لیا گیا اور نہ ہی یہ ادارے کے پاس رجسٹرڈ ہے۔
لیبارٹری، پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ اور درآمد شدہ کھیپ سے ملنے والے شواہد کے بعد اس رخ پر بھی تفتیش کی جا رہی ہے کہ ایسی کتنی کھیپیں نکالی گئی ہیں اور جب نیٹ ورک کی جانب سے ان کو کھاد ظاہر کیا جا رہا تھا تو ماڈل کسٹمز اپریزمنٹ کے متعلقہ ایگزامننگ افسران نے اس کے نمونے حاصل کر کے اپنی تصدیق کے لئے ٹیسٹ کیوں نہیں کروائے۔ اور اگر نمونے ٹیسٹ کروائے گئے تھے تو لیبارٹری رپورٹوں میں اسے پیسٹی سائیڈ کے بجائے کھاد ہی کیوں ظاہر کیا گیا۔ ان معلومات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ درآمد کنندگان اور ان کے ایجنٹ متعلقہ کسٹمز افسران اور لیبارٹری اہلکاروں سے رشوت کے عوض سہولت کاری حاصل کر رہے تھے۔ جن کے خلاف جلد ہی مقدمات کے اندراجات اور گرفتاریوں کا عمل شروع ہونے کا امکان ہے۔