ارشاد کھوکھر:
نواز لیگ کی قیادت نے بالآخر 27 برس کے بعد سندھ کی سیاست پر فوکس کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے پیچھے اصل وجہ آئندہ وزیراعظم کی دوڑ کے ساتھ دیگر وجوہات بھی ہیں۔ نواز لیگی قیادت نے سندھ میں پیپلزپارٹی مخالف جماعتوں پر مشتمل انتخابی اتحاد بنانے کے ساتھ کئی شخصیات سے انفرادی حیثیت میں بھی رابطے بڑھا دیے ہیں۔
اس کے علاوہ سندھ میں پیپلزپارٹی کے لیے سب سے بڑا مشکل مرحلہ انتخابات میں پارٹی ٹکٹ کی تقسیم یقیناً بنے گا۔ نواز لیگ کی قیادت نے پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں پیپلزپارٹی سے ناراض ہونے والے امیدواروں کو اپنی طرف مائل کرنے کی سیاسی حکمت عملی بنا رکھی ہے اور ابھی یہ دیکھنا بھی باقی ہے کہ جو شخصیات پیپلزپارٹی میں نئی شمولیت کر چکی ہیں کیا انہیں بھی ریورس گیئر لگ سکتا ہے۔
نواز لیگ کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو تجزیہ کاروں کا الزام ہے کہ 27 برس سے نواز لیگ کی قیادت سیاست کے حوالے سے سندھ کو نظرانداز کرتی رہی ہے۔ 1996ء کے بعد سندھ میں نواز لیگ کی سیاست سکڑتی رہی ہے۔ آخری بار نواز لیگ نے 1997ء میں ایم کیو ایم اور دیگر اتحادی جماعتوں سے مل کر سندھ میں حکومت بنائی تھی۔ اس وقت لیاقت علی جتوئی وزیراعلیٰ بنے تھے۔
بعدازاں گورنر سندھ حکیم سعید کی شہادت کے بعد متحدہ نے حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا تو لیاقت علی جتوئی کی حکومت بھی نواز لیگ کو ختم کرنا پڑی۔ اس کے بعد 12 اکتوبر 1999ء میں مشرف، نواز شریف کی حکومت ختم کر کے خود اقتدار پر قابض ہو گئے۔ مشرف کے ہوتے ہوئے 2002ء میں جو عام انتخابات ہوئے اس میں نواز لیگ کے حصے میں صرف 27 نشستیں آئی تھیں۔ جس میں سندھ کی ایک نشست بھی شامل نہیں تھی۔ 27 دسمبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھ میں مسلسل پیپلزپارٹی حکمرانی کرتی رہی ہے اس صورت حال میں عملی طور پر نواز لیگ سندھ میں کہیں بھی نظر نہیں آتی تھی۔
اس طرح 27 برس کے بعد نواز لیگ کی قیادت نے اب سندھ کی سیاست پر فوکس کر لیا ہے۔ جس کی واضح مثال نواز لیگ کے رہنمائوں خواجہ سعد رفیق، ایاز صادق کی جانب سے سندھ کا حالیہ دورہ ہے۔ انہوں نے آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے فنکشنل لیگ اور گرینڈ ڈیمرکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے سربراہ پیر صبغت اللہ شاہ راشدی المعروف پیرپگاڑا سے ملاقات کی۔ بعدازاں نواز لیگ کا وفد ایم کیو ایم کے مرکز بہادر آباد بھی پہنچ گیا۔ اس طرح جے یو آئی سندھ کے سربراہ راشد محمود سومرو سے بھی نواز لیگ کا وفد ملاقات کر چکا ہے۔ اصولی طور پر ان جماعتوں میں آئندہ انتخابات کے حوالے سے اتفاق ہو چکا ہے اور اس ضمن میں جلد ہی نواز لیگ کی اعلیٰ قیادت بھی سندھ کا دورہ کر کے مذکورہ اتحاد کو حتمی شکل دے گی۔
نواز لیگ کی قیادت نے یہ بات بھانپ لی ہے کہ اپنا وزیراعظم منتخب کرانے کے لیے صرف پنجاب سے کام نہیں چلے گا۔ اس کے لیے ملک کے دوسرے بڑے صوبے سندھ کو فوکس کرنا ضروری ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی مخالف صرف مندرجہ بالا جماعتوں پر اتحاد نہیں ہو گا بلکہ انفرادی حیثیت سے انتخابات میں کامیاب ہونے والی شخصیات کے ساتھ سندھ کی قوم پرست جماعتوں کی جانب بھی ہاتھ بڑھایا جائے گا۔ جس کے لیے نواز لیگ سندھ کے نئے صدر بشیر میمن سرگرم عمل ہیں۔ جہاں تک شخصیات کی بات ہے تو اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ نواز لیگی قیادت کے حالیہ دورے کے دوران پرانے جیالے اور 2018ء کے عام انتخابات میں میرپورخاص سے آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے علی نواز شاہ بھی نواز لیگ کی قیادت سے ملاقات کر چکے ہیں۔
سندھ میں دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی کے جو ماضی میں حریف رہے ہیں ان میں ٹھٹھہ کا شیرازی خاندان، گھوٹکی کا مہر خاندان، نوشہرو فیروز اور شکار پور کا جتوئی خاندان، شکار پور سے تعلق رکھنے والے سابق ایم این اے غوث بخش مہر و دیگر شامل ہیں۔ جن میں سے ٹھٹھہ کا شیرازی خاندان نے پہلے ہی پیپلزپارٹی میں شمولیت کرلی تھی اور سابقہ حکومت میں پیپلزپارٹی کے ساتھ تھا۔ جبکہ گھوٹکی کا مہر خاندان سیاست کے حوالے سے تقسیم تھا لیکن اب سردار علی گوہر خان مہر اور شکار پور سے تعلق رکھنے والے غوث بخش مہر نے بھی پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جوں جوں انتخابات کا مرحلہ قریب آئے گا تو صورت حال واضح ہو گی جس سے اس امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ شمولیت اختیار کرنے والے ریورس گیئر بھی لگا سکتے ہیں۔ جس کی ایک جھلک پہلے بھی نظر آچکی ہے جب علی گوہر خان مہر نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم پیپلزپارٹی کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس مرتبہ علی گوہر مہر اور غوث بخش مہر پیپلزپارٹی کے ساتھ ہی رہیں گے۔
سندھ میں مسلسل 15 برس سے حکمرانی کرنے والی جماعت پیپلزپارٹی نے مخالفین کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ مرحلہ وار پیپلزپارٹی کے حریف جاننے والے خاندانوں میں سے بیشتر پیپلزپارٹی میں شامل ہوتے رہے ہیں جس سے پیپلزپارٹی کی قیادت کے لیے ایک الجھن یہ بھی پیدا ہو گئی ہے کہ عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کیسے ہو جس کی جھلک ابھی سے نظر آرہی ہے۔
ضلع بدین میں سابق ایم این اے کمال چانگ یہ اعلان کر چکے ہیں کہ انہیں اگر پارٹی ٹکٹ نہیں ملا تو وہ پیپلزپارٹی کے خلاف انتخابات میں حصہ لیں گے۔ ایسے ہی ضلع گھوٹکی میں علی گوہر مہر کی شمولیت کے حوالے سے پیپلزپارٹی نے جو جلسہ منعقد کیا اس میں سابق ایم پی اے جام مہتاب ڈھر اور ان کے بھائی سابق صوبائی وزیر جام اکرام ڈھر نے شرکت تک نہیں کی۔
اس طرح مذکورہ ضلع میں 2018ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے شہریار شر شروع سے لے کر پیپلزپارٹی کا ساتھ دیتا رہا جس کے بدلے میں پیپلزپارٹی نے انہیں پارٹی ٹکٹ دینا چاہتی ہے جس سے پیپلزپارٹی کے پرانے جیالے سابق صوبائی وزیر جام مہتاب ڈھر بھی پارٹی سے نالاں ہیں۔ کیونکہ اگر شہریار شر کو ٹکٹ ملا تو جام ممتاز ڈھر کو ٹکٹ نہیں مل سکے گا۔
گھوٹکی کے جلسے میں انہوں نے بھی شرکت نہیں کی۔ شہریار شر کی طرح ضلع جیکب آباد میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اسلم ابڑو کو بھی شروع دن پیپلزپارٹی کو پیارے ہو گئے تھے۔ مذکورہ ضلع میں انہیں اگر پارٹی ٹکٹ ملتا ہے تو باقی امیدوار کے لیے مسئلہ ہو گا۔ ضلع سجاول میں ملکانی خاندان کے لیے ٹکٹ کی گنجائش نکلتی ہے یا نہیں کیونکہ وہاں علی حسن زرداری کا زور چلتا ہے۔
اس کے علاوہ نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے ضلع ٹھٹھہ، ضلع خیرپور میں پہلے کے مقابلے میں ایک ایک صوبائی حلقہ کم ہونے کی وجہ سے بھی امیدواروں کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں کہ اس مرتبہ کس کو ٹکٹ نہیں ملے گا۔ جہاں تک پیپلزپارٹی کے گڑھ سمجھے جانے والے ضلع لاڑکانہ کی بات ہے تو گزشتہ عام انتخابات میں جی ڈے اے کے امیدوار معظم عباسی نے کامیابی سمیٹ کر پیپلزپارٹی کو بڑا ڈینٹ لگایا تھا اس کے بعد سابق ایم پی اے مہتاب اکبر راشدی اور ان کے شوہر اکبر راشدی نے فنکشنل لیگ کو خیرباد کر کے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی خواہش بھی ہے کہ اس مرتبہ ان کے بیٹے رافع راشدی کو ٹکٹ ملے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی صورت حال سندھ کے تقریباً تمام اضلاع میں ہے جس سے نواز لیگ کی قیادت فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
سندھ میں پیپلزپارٹی مخالف سیاست میں کراچی ڈویژن کا اہم کردار رہا ہے۔ اس مرتبہ پیپلزپارٹی نے کراچی کی سیاست پر بھی زیادہ فوکس کیا ہوا ہے جس میں خصوصاً ضلع ملیر، ضلع جنوبی اور ضلع کیماڑی سرفہرست ہیں جبکہ نواز لیگ کی قیادت کی نظر میں یہ بات بھی ہے کہ گزشتہ عام انتخابات کے دوران کراچی سے پی ٹی آئی کو جو نشستیں ملی تھیں ان علاقوں اور پیپلزپارٹی کے زیراثر رہنے والے علاقوں پر زیادہ فوکس کر کے کراچی سے کافی نشستیں نکالی جا سکتی ہیں۔
کیونکہ کراچی میں اب متحدہ کی بھی 2018ء سے قبل والی پوزیشن نہیں رہی۔ تاہم سیاسی حلقوں میں یہ بحث بھی عام ہے کہ کراچی میں 2018ء کے مقابلے میں شاید متحدہ کو زیادہ نشستیں مل سکیں اور اتحادی جماعتوں سے مل کر شاید سندھ میں حکومت قائم کرنے کا بھی موقع مل سکے۔