نواز طاہر :
مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے قائد نواز شریف نے الیکشن سے قبل بلوچستان میں اپنی جماعت کی مکمل بحالی اور اتحادیوں سے معاملات طے کرنے کا معرکہ سر کرلیا ہے اور اب اگلے ہفتے وہ سندھ میں یہ معرکہ سر کرنے جارہے ہیں۔ جہاں وہ کم از کم بیس نشستیں محفوظ بنانے کا ہدف پورا کریں گے۔ تاہم اس کے بدلے انہیں بڑی ڈیل کرنا ہوگی۔
بلوچستان سے ’’امت‘‘ کے ذرائع نے بتایا کہ تمام ملاقاتیں خوشگوار ماحول میں ہوئیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے دوران صوبے میں ترقیاتی عمل جو رُک گیا تھا۔ آئندہ الیکشن کے بعد بلوچستان میں ان ترقیاتی منصوبوں کو جاری رکھنے اور ان کی رفتار تیز کرنے پر بات کی گئی اور تمام امور خوش اسلوبی سے انجام پائے ہیں۔
ذرائع کے مطابق آئندہ نون لیگ کو الیکشن میں جہاں مرکز اور پنجاب میں متوقع کامیابی کی امیدیں ہیں۔ وہیں بلوچستان میں صوبائی حکومت بنانے کی راہ بھی ہموار ہوگئی ہے۔ لاہور میں لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے قائد میان نواز شریف اگلے چند روزمیں (اب تک اکیس نومبر کی تاریخ طے ہے) صوبہ سندھ کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اس دوران وہ کراچی میں کنگری ہائوس کا بھی دورہ کریں گے اور پیر صاحب پگارا شریف سے ملاقات کریں گے۔ جس کے بنیادی نکات کم و بیش طے کیے جا چکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق گریند ڈیموکریٹک الائنس کے برقرار رہنے یا اس میں کسی تبدیلی اور اس کا مستقبل کا فیصلہ بھی نواز شریف کے دورہ سندھ کے دوران ہوگا۔ جی ڈی اے کی بڑی پارٹی پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کی طرف سے دس نشستوں کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور امکان غالب ہے کہ اسے بڑی حد تک تسلیم کرلیا جائے گا اور وہ تمام نشستیں فنکشنل لیگ واپس لے گی۔ جو سنہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں اسے کے ہاتھ سے نکل گئی تھیں یا خاص انداز سے’سرقہ‘ کی گئی تھیں۔
اندرون سندھ کی ان نشستوں کے علاوہ پیپلز پارٹی سے ماضی قریب میں ملنے والے کچھ سیاسی رہنما بھی اپنا ’قبلہ‘ تبدیل کرنے کیلیے پر تولتے بتائے جاتے ہیں اور اس وقت وہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی مسلسل رابطے میں ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا عوام سے رابطہ کم ہوا تھا اور مخصوص افراد اور الیکٹ ایبلز کی طرف توجہ زیادہ دینے سمیت دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ سنہ دو ہزار کے الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی ایک وجہ وہ رویہ بھی رہا۔ جو اب پیپلز پارٹی کی قیادت نے سندھ میں اختیار کر رکھا ہے۔
کئی حلقوں میں پیپلز پارٹی کے پاس پارٹی ٹکٹ کے حوالے سے اختلافات سامنے آنے کا امکان ہے۔ جبکہ جن سیاسی رہنمائوں کو ٹکٹ ملنے کا امکان کم ہے۔ وہ نواز شریف کی آئندہ الیکشن میں دو تہائی اکثریت ملنے کے تاثر پر اسی کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور نون لیگ کے مختلف رہنمائوں سے رابطے میں ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ارباب رحیم اور مرتضیٰ جتوئی بھی مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی قیادت سے رابطے میں ہیں۔ اسی طرح کچھ دیگر بھی نون لیگ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ جس طرح نواز شریف کو دورہ بلوچستان کے دوران انتخابی سیاست کے اہم رہنمائوں کو بھرپور ساتھ مل گیا ہے۔ ممکنہ طور پر اس سے زیادہ ساتھ سندھ سے بھی ملنے کا امکان ہے۔
اس کے اعلان یکے بعد دیگرے یا پھر کسی خاص تقریب میں میاں نوازشرف کی کراچی میں سیاسی جماعتوں کی قیادت سے ملاقاتوں کے بعد ہوگا۔ لیکن اس سے پہلے ذرائع کے مطابق مقامی سطح سے مختلف پارٹیوں کے لوگوں کا مسلم لیگ ’’ن‘‘ میں شامل ہونے والوں سے آغاز ہوگا۔ لیگی ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے نئے صوبائی صدر کی نامزدگی یہ نتائج حاصل کرنے میں اہم کردار قرار دی جارہی ہے۔