علی جبران:
شاہد خاقان عباسی ویسے تو مریم نواز کو نون لیگ کی چیف آرگنائزر بنانے پر ناراض ہیں۔ لیکن اگلے انتخابات میں اپنے بیٹے کے لیے پارٹی کا ٹکٹ چاہتے ہیں۔
اس حوالے سے وہ پارٹی قائد نواز شریف سے براہ راست بات بھی کر چکے ہیں، لیکن انہیں حوصلہ افزا جواب نہیں ملا۔ نون لیگ کے اندرونی ذرائع نے انکشاف کیا کہ قریباً ڈیڑھ ماہ قبل اکتوبر کے اوائل میں جب شاہد خاقان عباسی نے لندن جاکر نواز شریف سے ملاقات کی، تو اس موقع پر اپنے چھوٹے بیٹے کو سیاست کے میدان میں اتارنے اور اسے نون لیگی ٹکٹ پر اپنے آبائی حلقے سے اگلا الیکشن لڑانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ تاہم ذرائع کے بقول انہیں اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ہوسکی۔
اس سلسلے میں نواز شریف نے یکسر انکار نہیں، تو حوصلہ افزا جواب بھی نہیں دیا تھا۔ جس پر شاہد خاقان عباسی کو سخت مایوسی ہوئی۔ حسن نواز کے دفتر میں یہ ملاقات ایک ایسے موقع پر ہوئی تھی، جب مریم نواز کو پارٹی کا چیئرمین بنائے جانے پر شاہد خاقان عباشی کی ناراضگی کی خبریں عروج پر تھیں۔ اس لیے توقع کی جارہی تھی کہ شاید گلے شکوے دور ہوجائیں گے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
نواز شریف سے ملاقات کے بعد انتظار میں باہر کھڑے میڈیا کے لوگوں سے گفتگو میں بھی شاہد خاقان عباسی کا لہجہ بتا رہا تھا کہ میٹنگ زیادہ خوشگوار نہیں تھی۔ تب نواز شریف پاکستان واپس آنے کی تیاری کر رہے تھے۔ اس حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا ’’میں کسی کے استقبال کا قائل نہیں ہوں‘‘ اور پھر انہوں نے ایسا ہی کیا۔ نواز شریف کا پاکستان میں استقبال کرنے والے پارٹی رہنماؤں میں وہ شامل نہیں تھے۔
شاہد خاقان عباسی کے تین بیٹے ہیں، تاہم دو کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں۔ البتہ سب سے چھوٹا بیٹا نادر خاقان عباسی، سیاست میں کافی دلچسپی لیتا ہے۔ اسی بیٹے کو شاہد خاقان عباسی اپنے جانشین کے طور پر سیاسی میدان میں اتارنا چاہتے ہیں۔ نادر خاقان عباسی امریکا سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اب ملازمت کررہے ہیں۔ ان کا زیادہ وقت امریکا میں گزرتا ہے۔
دو ہزار سترہ میں جب شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنایا گیا تو اس وقت بھی نادر خاقان عباسی امر یکا میں تھے۔ تاہم اپنے والد کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے پاکستان آئے۔ شاہد خاقان عباسی اپنے بیٹے کو اپنے آبائی حلقے سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑانے کے خواہش مند ہیں۔ ان کا حلقہ این اے 57 ہے جو پہلے این اے 50 ہوا کرتا تھا۔ یہ حلقہ مری اور راولپنڈی کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ شاہد خاقان عباسی 1988ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد سیاست میں داخل ہوئے اور پہلے ہی الیکشن میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئے تھے۔ تب سے اب تک وہ 6 بار رکن اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ تاہم دو ہزار دو اور پھر دو ہزار اٹھارہ کا انتخاب وہ ہارگئے تھے۔
اگر ان کے بیٹے الیکشن لڑتے ہیں تو عملی سیاست میں قدم رکھنے والی ان کی یہ تیسری پیڑھی ہوگی۔ ان کی ایک بہن سعدیہ عباسی اس وقت سینیٹر ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کے والد ریٹائرڈ ائیر کموڈور خاقان عباسی، انیس سو پچاسی کا الیکشن لڑکر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ بعد ازاں وزیراعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وفاقی وزیر رہے۔ وہ اپریل 1988ء کو سانحہ اوجھڑی کیمپ میں جاں بحق ہوگئے تھے، جب ان کی گاڑی ایک میزائل کی زد میں آئی۔
شاہد خاقان عباسی اپنے بیٹے کو سیاست کے میدان میں تو اتارنا چاہتے ہیں، لیکن پارٹی کی سینئر قیادت سے ان کی ناراضگی تاحال برقرار دکھائی دے رہی ہے۔ وہ ملک میں نئی پارٹی کے قیام کا بھی اشارہ دے چکے ہیں، جس میں مفتاح اسماعیل ان کے ہم نوا ہیں۔ دونوں نون لیگی رہنما، ایل این جی کیس میں قید بھی کاٹ چکے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی اگرچہ متعدد بار نئی پارٹی کا عندیہ دے چکے ہیں، لیکن تاحال نون لیگ کا حصہ ہیں۔ تاہم پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بار انہیں پارٹی کا ٹکٹ ملنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ کیونکہ نواز شریف ان کے حالیہ رویہ سے خوش نہیں۔
برطانیہ کے ایک ن لیگی عہدے دار کے بقول ’’میاں صاحب ایک وضع دار شخص ہیں۔ اس لیے بہت سی ناگوار باتوں اظہار نہیں کرتے۔ یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ اگر شاہد خاقان عباسی ایک بار پھر چل کر نواز شریف کے پاس چلے جاتے ہیں تو وہ سب کچھ درگزر کردیں۔ کیونکہ شاہد خاقان عباسی ہمیشہ سے نواز شریف کی گڈ بک میں رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی نااہلی کے بعد انہوں نے بھائی شہباز شریف کے بجائے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنایا۔ اس سے پہلے جب شاہد خاقان عباسی اپنے آبائی حلقے کی سیٹ ہارگئے تھے تو انہیں لاہور میں نون لیگ کے مضبوط حلقے سے ضمنی الیکشن لڑا کر قومی اسمبلی میں پہنچایا گیا۔ ان کی بہن سعدیہ عباسی کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا۔‘‘
نون لیگ کے اس اوور سیز عہدے دار کا مزید کہنا تھا ’’ان ساری باتوں کو لے کر نواز شریف کے شاہد خاقان عباسی پر بڑے احسانات ہیں۔ اس کے باوجود وہ جس طرح پارٹی پالیسی کے برخلاف سیمینارز کر رہے ہیں اور اپنی ناراضگی دکھا رہے ہیں، ظاہر ہے کہ اس پر مرکزی قائدین خوش نہیں۔‘‘ اپنے بیٹے کو پارٹی ٹکٹ دلانے سے متعلق شاہد خاقان عباسی کی خواہش سے متعلق ایک سوال پر متذکرہ نون لیگی عہدے دار کا ہنستے ہوئے کہنا تھا ’’وہ خود تو مریم نواز کی زیرِ قیادت کام نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن بیٹے کو یہ ذمہ داری دینے کو تیار لگتے ہیں۔‘‘
نون لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے لیے تو پھر پارٹی میں تھوڑی بہت گنجائش دکھائی دیتی ہے، لیکن مفتاح اسماعیل کے لیے بظاہر پارٹی کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔ انہیں اسحاق ڈار کو ہدف تنقید بنانے کی قیمت ادا کرنی پڑرہی ہے۔
اس پر مزید یہ کہ مفتاح اسماعیل نے شاہد خاقان عباسی کے ساتھ مل کر علم بغاوت بلند کیا اور ایسے سیمینارز کیے جن میں بین السطور پارٹی کی پالیسیوں کو نشانہ بنایا۔ گھر کے بھیدی بتاتے ہیں کہ جب اس عمل کے ردعمل کی تپش محسوس ہونے لگی تو انہوں نے نون لیگ سندھ میں موجود اپنے بعض ہمدرد عہدے داروں کو کہا کہ ’’شاہد خاقان عباسی کو سپورٹ کرو۔‘‘ جس پر ان عہدے داروں کا انہیں کہنا تھا کہ پارٹی کے سسٹم کے اندر رہ کر سب کچھ کیا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی انہیں مخدوم جاوید ہاشمی اور چوہدری نثار کی مثال بھی دی کہ کس طرح پارٹی سے الگ ہو کر دونوں سیاست میں صفر ہوگئے۔
مفتاح اسماعیل کو یہ بھی باور کرایا گیا کہ انہیں چاہیے تھا کہ پارٹی سسٹم کے اندر رہ کر اپنے ہم نواؤں کی تعداد بڑھاتے رہتے۔ یوں وہ پارٹی کی ان پالیسیوں کے خلاف، جن پر ان کے تحفظات ہیں، ایک توانا آواز بن سکتے تھے۔ دوسری جانب مفتاح اسماعیل کو فاروق ستار، ایم کیو ایم پاکستان میں شمولیت کی پیشکش کر چکے ہیں۔ تاہم مفتاح اسماعیل کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا ایم کیو ایم پاکستان میں جانا مشکل ہے۔