حسام فاروقی:
کراچی میں رواں سال کچرا کنڈیوں سے 195 نوزائیدہ اور نا مکمل بچوں کی لاشیں مل چکی ہیں، جنہیں ایدھی فائونڈیشن کی جانب سے سپرد خاک کیا گیا ہے۔ اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ مضافاتی آبادیوں میں قائم اتائی میٹرینٹی سینٹرز اس گھنائونے فعل میں ملوث ہیں۔
جبکہ زیادہ تر حمل ضائع کروانے والوں میں فحاشی کا کاروبار کرنے والی مافیا ملوث ہے، جسے کراچی پولیس کے بعض رشوت خور افسران سر پرستی فراہم کر رہے ہیں۔ جبکہ پولیس کے بعض بد عنوان افسر بھی قحبہ خانے چلانے میں ملوث ہیں۔ ملنے والی لاشوں میں زیادہ تعداد لڑکوں کی ہے۔ اس معاملے میں سابق آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی جانب سے سخت اقدام اٹھایا گیا اور مقدمات کے اندراج کی پولیس کو ہدایت کی گئی جس پر 4 جولائی 2023ء کو اس معاملے کا پہلا مقدمہ اتحاد ٹائون تھانے میں درج کیا گیا۔
کئی سال سے کراچی کے مختلف علاقوں میں موجود کچرا کنڈیوں سے نوزائدہ اور نا مکمل بچوں کی لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے جنہیں ایدھی کی جانب سے سپرد خاک کر دیا جاتا ہے۔ ایدھی ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں سال کراچی کے مختلف علاقوں سے اب تک 195 نوزائدہ اور نامکمل بچوں کی لاشیں مل چکی ہیں، جنہیں ایدھی کے رضا کاروں نے سپرد خاک کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جن نوزائیدہ اور نا مکمل بچوں کی لاشیں ملی ہیں ان میں زیادہ تعداد لڑکوں کی ہے۔ اگر اس معاملے میں رواں سال ماہانہ بنیادوں پر ملنے والے نوزائیدہ بچوں کی لاشوں کی تعداد پر نظر ڈالی جائے تو جنوری میں 13 نوزائیدہ بچوں کی لاشیں شہر کے مختلف علاقوں سے ملیں۔ فروری میں 16 لاشیں ملیں۔ مارچ میں 20 لاشیں ملیں۔ اپریل میں 18 لاشیں ملیں۔ مئی میں14، جون میں 14، جبکہ جولائی میں سب سے زیادہ لاشیں 30 ملیں۔ اسی طرح اگست میں 28، ستمبر میں 19، اکتوبر میں 20 لاشیں اور نومبر میں 3 لاشیں شہر کی مختلف کچرا کنڈیوں سے مل چکی ہیں۔ جبکہ پولیس کی جانب سے اس معاملے کا پہلا مقدمہ 4 جولائی کو اتحاد ٹائون تھانے میں سرکاری مدعیت میں درج کیا گیا۔ جس کے بعد سے اب تک 50 سے زائد مقدمات کراچی کے مختلف تھانوں میں درج ہو چکے ہیں۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اس معاملے میں پولیس صرف مقدمات درج کرنے کی حد تک ہی محدود ہے اور ان مقدمات پر تفتیش نہ ہونے کے برابر ہے۔
اسی لیے اب تک پولیس کسی بھی ملزم یا ملزمان کو ان معاملات میں گرفتار نہیں کر سکی ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ان معاملات میں سب سے زیادہ ملوث وہ میٹرنٹی سینٹرز ہیں جو شہر کے مضافاتی علاقوں میں قائم ہیں اور ان میں سے زیادہ تر غیر رجسٹرڈہیں، جن میں اتائی ڈاکٹروں سمیت دائیاں اس گھنائونے فعل میں ملوث ہیں جو اسقاط حمل کے کام کے منہ مانگے دام وصول کرکے یہ کام کرتی ہیں اور نوزائیدہ و نا مکمل بچوں کو بھی ان ہی کی جانب سے ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔
جبکہ کیس خراب ہونے کی صورت میں پھر مریض کو کسی بڑے اسپتال منتقل کیا جاتا ہے، مگر ان جعلی ڈاکٹروں اور میٹرنٹی سینٹر کے مالکان کی کوشش ہوتی ہے کہ مریضہ کیس خراب ہونے کی صور ت میں جانبر نہ ہوسکے تاکہ ان کے راز باہر نہ نکلیں۔ پولیس ذرائع کا اس معاملے میں بات کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ اسقاط حمل کروانے والی خواتین میں زیادہ تعداد ان عورتوں کی ہے جو کراچی میںفحاشی کا نیٹ ورک چلانے والی مافیا کے ساتھ منسلک ہیں۔ شہر میں سینکڑوں کی تعداد میں چلنے والے ان تمام قحبہ خانوں کو کراچی پولیس کی مکمل سر پرستی حاصل ہے۔
شہر کے مختلف مقامات سے ملنے والے نوزائدہ بچوں کی لاشیں اسی مافیا کے دھندے کا حصہ ہیں۔ واضح رہے کہ ایک سابق ایس ایچ او منگھو پیر غلام مصطفی کورائی پر الزام ہے کہ ان کی جانب سے گڈاپ کے علاقے میں ایک فارم ہائوس پر قحبہ خانہ چلایا جا رہا، جہاں ایک عورت مانع حمل ادویات کی زیادتی کے باعث ہلاک ہو گئی تھی جس کی لاش غلام مصطفی کورائی کی ہدایت پر ملزمان نے سچل کے علاقے میں پھینکی تھی۔ پولیس غلام مصطفی کورائی کو بھی اب تک گرفتار نہیں کر سکی ۔
دوسری جانب پولیس نے ملنے والے نوزائدہ یا نا مکمل بچوں کے ڈی این اے سیمپل بھی حاصل نہیں کئے ہیں جس سے پولیس کی اس معاملے میں عدم دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔ پولیس کے ایک خصوصی سیل میں تعینات افسر کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں پولیس کی جانب سے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی جانے کی کوشش تو کی گئی تھی، مگر اس پر بھی اچانک خاموشی اختیار کر لی گئی۔ ایدھی ذرائع کا کہنا ہے کہ جن بچوں کی ہماری جانب سے تدفین کی گئی ہے، ان میں سے کئی لاشیں تو ایسی بھی تھیں جنہیں جنگلی جانور اپنی بھوک مٹانے کا ذریعہ بنا چکے تھے۔