نگراں سیٹ اپ میں مختلف سیاسی شخصیات کی مداخلت کے باعث دن بدن بڑھتے اختلافات ہیں، فائل فوٹو
نگراں سیٹ اپ میں مختلف سیاسی شخصیات کی مداخلت کے باعث دن بدن بڑھتے اختلافات ہیں، فائل فوٹو

سندھ کی حکومتی مشینری کا بھٹہ بیٹھ گیا

ارشاد کھوکھر:

سندھ کے نگراں سیٹ اپ میں مختلف سیاسی شخصیات کی مداخلت کے باعث دن بدن بڑھتے ہوئے اختلافات کی وجہ سے حکومتی مشینری کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔ صورتحال اس نہج تک پہنچ گئی ہے کہ نہ صرف وزیر صحت بلکہ بعض دیگر صوبائی وزرا بھی نگراں وزیر اعلیٰ سے نالاں ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اپنے بہنوئی کو سیکریٹری زراعت تعینات کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

جبکہ دوسری طرف وزیر اعلیٰ کے دو پرنسپل سیکریٹریز کو سندھ بدر ہونا پڑا۔ سندھ کی نگراں حکومت کے قیام کو تین ماہ گزر چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک نہ صرف انتظامی مشینری بلکہ کئی وزرا بھی اس حوالے سے پریشان ہیں کہ نگراں حکومت کس سمت میں چل رہی ہے۔ اور انہیں کون چلا رہا ہے۔ کیونکہ انتظامی افسران اور صوبائی وزرا جو فیصلے خود کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ وہ اس میں بھی آزاد نہیں۔

سندھ میں نگراں سیٹ اپ کو آئے ہوئے تین ماہ گزر چکے ہیں۔ جس میں نگراں وزیراعلیٰ، صوبائی کابینہ بھی موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی سندھ کے نگراں سیٹ اپ کی حالت اس ریوڑ کی طرح نظر آرہی ہے۔ جو بغیر چرواہے کے ہو۔ جس کا سبب مختلف سیاسی شخصیات کی مداخلت اور بعض اداروں کا سفارشی کلچر ہے۔

اس کی پہلی جھلک 14 ستمبر کو اس وقت نظر آئی۔ جب پیپلز پارٹی کی قیادت کی سفارش پر نگراں صوبائی وزیر یونس ڈھاگہ سے محکمہ خزانہ اور محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کا قلمدان واپس لے لیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پر ری ایکشن آنے کے بعد نگراں وزیر اعلیٰ نے کسی کو یہ یقین دہانی کرادی تھی کہ یونس ڈھاگہ کو مذکورہ محکموں کا قلمدان جلد واپس دے دیا جائے گا۔ لیکن یہ بات پیپلز پارٹی کی قیادت کو ناگوار گزری۔ اس لئے ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔ جس کے بعد مذکورہ نگراں صوبائی وزیر بھی عملی طور پر وزیر اعلیٰ سندھ سے نالاں ہیں۔

بعد ازاں 10 سے 13 ارب روپے مالیت کی روبوٹک سرجری کی خریداری کے معاملے پر نگراں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر سعد خالد نیاز اور وزیراعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر کے درمیان اختلافات میڈیا میں بھی کھل کر سامنے آگئے۔ جس کے بعد ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ صوبائی وزیر کی نگراں وزیراعلیٰ سے بات چیت بند ہے۔ دیکھا جائے تو صوبائی وزرا کی تقرری وزیر اعلیٰ کے اختیارات میں ہوتی ہے۔ لیکن اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی نگراں وزیر اعلیٰ مقبول باقر، ڈاکٹر سعد خالد نیاز کو وزارت سے ہٹا نہیں سکے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حوالے سے اصل اختیارات نگراں وزیراعلیٰ کے پاس نہیں۔ بلکہ کسی اور کے پاس ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسی طرح بعض دیگر صوبائی وزرا بھی اس نوعیت کی وجوہات کی بنا پر وزیر اعلیٰ سندھ سے نالاں ہیں۔ لیکن ان کی اجلاسوں میں وزیراعلیٰ سے بات چیت ضرور ہوتی ہے۔

معاملہ صرف صوبائی وزرا تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ اس صورتحال سے سندھ کی انتظامی مشینری بھی سخت متاثر ہو رہی ہے۔ جبکہ کئی محکموں کے سیکریٹریز اور نگراں وزرا کے درمیان بھی اختلافات کے قصے عام ہیں۔ ان میں سے خاص طور پر نگراں وزیر آبپاشی ایشور لعل اور مذکورہ محکمے کے سیکریٹری نیاز عباسی کے چرچے عام ہیں۔ نگراں سیٹ اپ کے بعد افسران کی تقرری و تبادلوں کے متعلق اجازت لینے کے لئے الیکشن کمیشن کو جو فہرستیں ارسال کی گئی تھیں۔

اس میں سیکریٹری آبپاشی کیلئے چیف انجینئر سردار شاہ کا نام تجویز کیا گیا تھا۔ جو نیب انکوائری میں سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے ساتھ شریک ملزم رہے ہیں۔ لیکن الیکشن کمیشن نے نگراں حکومت کی جانب سے ارسال کردہ سردار شاہ سمیت بعض محکموں کے تجویز کردہ سیکریٹریز کی جگہ دیگر افسران کی تقرری کرنے کی منظوری دی تھی۔ جس میں نیاز عباسی بھی شامل تھے۔

لیکن کئی حلقے اس بات پر پریشان ہیں کہ ایشور لعل کا نام وزارت کے لئے مقتدر حلقوں سے آیا تھا۔ اور نیاز عباسی کا نام الیکشن کمیشن نے خود تجویز کیا تھا۔ تو پھر ان دونوں میں اختلافات معنی خیز ہیں۔ اس طرح الیکشن کمیشن کو جو فہرست گئی تھی۔ اس میں سابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے بہنوئی اعجاز شاہ کا نام سیکریٹری محکمہ زراعت کے لئے تجویز کیا گیا تھا۔ لیکن الیکشن کمیشن سے جو منظوری آئی۔ اس میں اعجاز شاہ کی جگہ رفیق مصطفیٰ شیخ کے نام کی منظوری دی گئی۔ اور ان کو مذکورہ عہدے پر تعینات بھی کیا گیا۔ لیکن دو ماہ کے بعد سید مراد علی شاہ کا زور چل گیا اور رفیق مصطفیٰ شیخ کی جگہ اعجاز شاہ سیکریٹری زراعت تعینات کیے جا چکے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی قیادت سیکریٹری محکمہ خزانہ کے عہدے پر تعینات افسر کاظم جتوئی کو ہٹوانے کی تین مرتبہ کوشش کر چکی ہے۔ لیکن اس میں انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ ان سرگرمیوں کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے افسر جو نگراں وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری کے عہدے پر تعینات تھے، اسٹیبلشٹمنٹ ڈویژن نے ان کی خدمات حکومت سندھ سے واپس لے کر وفاقی حکومت میں رپورٹ کرا دیا۔ جس کے بعد پیپلز پارٹی کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے آغا واصف عباس وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری کے عہدے پر تعینات ہوئے۔

سندھ کی انتظامی مشینری پر گہری نظر رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ مراد علی شاہ کی جانب سے اپنے بہنوئی کو سیکریٹری تعینات کرانے میں کامیابی کے بعد آغا واصف کو بھی حسن نقوی کی طرح سندھ بدر کیا گیا۔ اس ضمن میں ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور فنکشنل لیگ بھی اس بات کی شکایت کر چکی ہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے منظور نظر افسران کو آگے رکھا گیا ہے۔ مذکورہ جماعتوں کو آغا واصف کے پرنسپل سیکریٹری تعینات ہونے پر بھی شدید تحفظات تھے۔

خصوصاً انتظامی حلقوں میں اب یہ بحث عام ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اگر کسی افسر کو ایڈجسٹ کرادیتی ہے تو اس کے بدلے میں ان کے کسی اور منظور نظر افسر کو سندھ بدر ہونا پڑتا ہے۔ جس کی ایک مثال پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے پولیس افسر مقصود میمن ہیں کہ ان کو بھی سندھ بدر ہونا پڑا۔

پیپلز پارٹی کی قیادت سیکریٹری محکمہ اسکول ایجوکیشن کے عہدے پر تعینات ڈاکٹر شیرین ناریجو کی تعیناتی سے بھی خوش نہیں۔ اس صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اب اپنے کس من پسند افسر کی تعیناتی کراتی ہے۔ اس کے پھر ان کے قریب سمجھے جانے والے افسر کے سندھ بدر ہونے کی باری آسکتی ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو نگراں دور حکومت میں اہمیت مل رہی ہے۔ لیکن اس حوالے سے ان کی ایک لمٹ متعین ہے۔