طالبان سربراہ کو افغان سرزمین سے پاکستان پر ٹی ٹی پی حملوں سے لاعلم رکھا گیا، فائل فوٹو
طالبان سربراہ کو افغان سرزمین سے پاکستان پر ٹی ٹی پی حملوں سے لاعلم رکھا گیا، فائل فوٹو

افغان وزرا کو پاکستان کیخلاف بیانات سے روک دیا گیا

محمد قاسم:
افغان طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے وزرا کو پاکستان کے خلاف بیان بازی سے روک دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کے جائز مطالبات پرغورکیا جائے جبکہ آنے والے افغان مہاجرین کی بحالی میں تیزی لانے کی بھی ہدایت کی ہے۔

گزشتہ روز افغان کابینہ کا اجلاس گورنر ہائوس قندھار میں طالبان امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ جس میں کابینہ سے خطاب کے دوران انہوں نے وزرا پر زور دیا کہ ہمسایہ و دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں وسعت لائی جائے اور بعض ہمسایہ ممالک کو درپیش مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

جبکہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ جو ان مسائل کو حل کرے گی۔ کمیٹی میں وزارت داخلہ کے حکام بھی شامل ہوں گے۔ ملا ہیبت اللہ کو پاکستان سے آنے والے مہاجرین کے حوالے سے نائب وزیراعظم عبدالسلام حنفی نے رپورٹ پیش کی۔ جس پر ملا ہیبت اللہ نے تمام وزرا کو مہاجرین کی بحالی کیلئے مزید اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔

کابینہ میں موجود ایک وزیر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ طالبان امیر نے ملک میں نفاذ شریعت کی کوششوں کو ناکافی قرار دیا اور مزید مزید کوششوں کی ہدایت دی۔ اجلاس کے دوران ملا عبدالغنی برادر نے اپنے دورہ ایران اور وزیر تجارت حاجی نورالدین عزیزی نے اپنے دورہ پاکستان کے حوالے سے کابینہ کو آگاہ کیا۔ کابینہ اجلاس میں مرکزی بینک کے صدر ملا ہدایت اللہ بدری نے بینک کے حوالے سے رپورٹ پیش کی۔

تاہم ذرائع کے مطابق کابینہ میں پاکستان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے حوالے سے مطالبات پر بحث کی گئی اور اس پر ملا ہیبت اللہ نے پاکستان کے مطالبات پر غور کرنے کی ہدایت کی۔ کیونکہ افغان طالبان کے سربراہ تک یہ پیغام نہیں پہنچایا گیا تھا کہ پاکستان پر حملوں کیلئے افغان سرزمین استعمال کی رہی ہے اور پاکستان کو بعض اقدامات پر مجبور کیا جارہا ہے۔ جس میں سرحدی علاقوں کو مکمل طور پر بند کرنا بھی شامل ہے۔

جبکہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو بھی آئندہ سال نکالنا شامل ہو سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق افغان حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان پر دبائو ڈال کر ٹی ٹی پی کا مسئلہ حل کیا جائے۔ تاہم موجود عسکری قیادت نے کسی قسم کا دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور واضح کیا ہے کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے حوالے سے صرف ایک شرط پر مذاکرات کیلئے تیار ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگ ہتھیار ڈال دیں۔ دوسری جانب سیکورٹی اداروں نے پورے ملک میں ٹی ٹی پی کیخلاف آپریشن تیز کردیا ہے۔

پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں ایک کارروائی میں ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈورز کے خلاف کارروائی کی گئی۔ گزشتہ روز ڈیرہ اسمعایل خان میں بھی تین اہم ٹی ٹی پی کمانڈرز ہلاک کیے گئے۔ بلوچستان اور خیبرپختون میں ہونے والے حملوں کے بعد سخت آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں کی جارہی ہیں۔

دوسری جانب خیبرپختون میں پولیس کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ سی ٹی ڈی نے بھی کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے اور کئی افراد کے نام اور پتے جاری کر کے ان کے سروں کی قیمتیں مقرر کردی ہیں۔ ان اقدامات کے بعد ٹی ٹی پی کے حوالے سے مذاکرات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ افغان طالبان کو اب پلان بی پر کام کرنا ہو گا۔ جس میں ٹی ٹی پی کو پاکستان کیخلاف کارروائیوں سے روکنا ہو گا۔

ذرائع کے مطابق پاکستان کو ٹی ٹی پی کے لوگوں کو افغانستان میں بسانے پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ لیکن پاکستان پر حملے رکوانے ہوں گے۔ کیونکہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پاکستان لانے کے خلاف ہیں۔ ذرائع کے بقول افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو شمال اور جنوبی افغانستان میں بسانے کی منصوبہ بندی شروع کی تھی۔ تاہم شدید اندرونی مخالفت پر اس منصوبے کو ترک کر دیا گیا تھا۔