محمد قاسم :
کالعدم ٹی ٹی پی کے گل بہادر گروپ کے سربراہ حافظ گل بہادر کی حوالگی کا مطالبہ افغان حکومت کیلئے چیلنج بن گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان میں افغانستان کے سفارتی ایلچی کی جانب سے افغان وزارت خارجہ کو باضابطہ کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے باضابطہ طور پر گل بہادر کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ خود کش حملے میں افغان شہری کے ملوث ہونے کی وسیع تحقیقات کا مطالبہ اور اس حوالے سے تمام معلومات شیئر کرنے کا کہا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گل بہادر ماضی میں جے یو آئی (ف) شمالی وزیرستان کا امیر رہ چکا ہے۔ اس کی پاکستانی اداروں کے خلاف کارروائی کے بعد اسے پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ جس کے بعد گل بہادر گروپ نے الگ شناخت اپنالی۔ افغان ذرائع کے مطابق طالبان حکومت کیلئے گزشتہ دو برسوں میں پہلی بار ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور اس پر مشاورت شروع کر دی گئی ہے۔
طالبان ذرائع کے مطابق طالبان حکومت کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سلامتی افغانستان کے فائدے میں ہے۔ تاہم افغان حکومت کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرے گی جس سے افغانستان کی سیکورٹی کو خطرہ لاحق ہو۔
ان ذرائع کے مطابق طالبان کو شمالی اتحاد سمیت داعش خراسان اور کئی دیگر گروپوں کا سامنا ہے۔ سیکیورٹی سمیت دیگر ایشوز یعنی معیشت، تجارت اور تعلیمی اداروں میں ہیومن ریسورسز کی کمی کا اسے سامنا رہا۔ پاکستان کا مطالبہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے۔ جب طالبان حکومت کو ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام کیلئے عالمی برادری کے دبائو کا سامنا ہے۔ طالبان سے امریکہ نے بھی اپوزیشن کے ساتھ مسائل حل کرنے کا کہا ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے منگل کے روز کہا کہ امریکی خفیہ اداروں کے اعلیٰ عہدیدار خود طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہوئے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل امراللہ صالح سمیت افغان حکومتی ذمہ داران فرار ہوگئے اور میدان خالی چھوڑ دیا اور اب الزام ان پر لگایا جارہا ہے۔ طالبان حکومت کے نائب وزیر خارجہ مولوی عباس نے کہا ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ تاہم اپوزیشن کو افغانستان آنا پڑے گا۔ پاکستان کے مطالبے پر ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے حکومت باضابطہ بیان جاری کرے گی۔ سیکورٹی کے حوالے سے افغان حکومت نے ہمیشہ پاکستان کے مطالبات پر غور کیا اور اب بھی ایسا ہی ہوگا۔
دوسری جانب مشرقی افغانستان میں موجود اہم ذرائع نے بتایا کہ حقانی نیٹ ورک کے بعض کمانڈروں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ بات کی جائے کہ وہ افغان باشندوں کو بھرتی کرنے سے باز رہیں اور وہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کریں۔ کیونکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی خرابی کا دونوں ممالک کے عوام کو نقصان ہوگا۔
تاہم ذرائع کے مطابق اگر طالبان پاکستان کے مطالبات پر غور نہیں کرتے اور انکار کرتے ہیں تو پاکستان کی جانب سے افغان باشندوں کو ویزے کی فراہمی معطل ہوسکتی ہے۔ جس سے ضرورت مندوں کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔ افغان حکومتی ذرائع کے مطابق طالبان کے امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے پہلے ہی پاکستان کے خلاف لڑائی کو خلاف شریعت قرار دیا ہے۔ اس لئے افغان حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی کا امکان ہے۔ تاہم طالبان حکومت اس حوالے سے مشاورت کے بعد فیصلہ کرے گی۔ کیونکہ طالبان مخالف عناصر پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان اختلافات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔