اقبال اعوان :
سنی تحریک کے دونوں دھڑوں نے انتخابی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ جبکہ کارکنوں کے ساتھ ساتھ ووٹرز پریشان ہیں کہ کونسا گروپ مکمل کنٹرول حاصل کرے گا۔ دونوں جانب سے جنرل ورکرز اجلاس بلوائے جارہے ہیں، جس کے باعث کشیدگی مزید بڑھنے لگی ہے۔
کراچی سمیت ملک بھر میں دونوں دھڑوں کے رہنما اور ذمہ دار اپنے اپنے گروپ چلا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق عام انتخابات میں گروپ بندی کے شکار دھڑوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ تاحال ایک نام، ایک جھنڈے اور ایک منشور کے تحت کام چلایا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ سنی تحریک کا ایک گروپ ثروت اعجاز قادری اور دوسرا گروپ احمد شاداب نقشبندی کی سربراہی میں چل رہا ہے۔ معاملہ عدالتوں اور الیکشن کمیشن میں بھی چل رہا ہے۔ جبکہ بعض سنی رہنمائوں کی دونوں گروپوں کو یکجا کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ معاملہ سربراہ کی کرسی کا ہے۔ واضح رہے کہ شہر میں سیاسی و مذہبی جماعتوں نے سیاسی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ تاہم پاکستان سنی تحریک تاحال بحران سے نہیں نکل سکی ہے اور دونوں دھڑے انتخابی سرگرمیاں کررہے ہیں۔ جنرل ورکرز اجلاس کررہے ہیں۔ جبکہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے امیدواروں کے حوالے سے مشاورت جاری ہے۔ سیاسی اور مالی بحران کے شکار دونوں دھڑوں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے۔ تاہم مرکزی حیثیت سنی تحریک کے احمد شاداب نقشبندی گروپ کی ہے جس کو کراچی کے سیکٹرز اور یونٹوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ سیکٹرز اور یونٹوں میں دوسرے دھڑے کے لوگ بھی شامل ہیں۔
مرکز کا کنٹرول چونکہ احمد شاداب نقشبندی گروپ کے پاس ہے، اس لیے وہ انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے کے لیے درخواستیں مانگ رہا ہے۔ جبکہ کراچی سمیت ملک بھر میں ثروت اعجاز قادری گروپ کی حمایت کرنے والوں کو پارٹی سے معطل کیا جارہا ہے۔ سیکٹرز اور یونٹوں نے سنی تحریک کے زیراثر علاقوں میں مرکز سے وفاداری کی چاکنگ کر دی ہے۔ تاہم کھل کر جنرل ورکرز اجلاس یا کوئی اور پروگرام نہیں کیا جارہا ہے۔
اسی طرح دھڑے بندی کے بعد سنی تحریک کو ملنے والے چندے میں بھی کمی آگئی ہے کہ کس گروپ کو مالی سپورٹ کریں۔ علاقوں کے ووٹرز بھی پریشان ہیں کہ کون سے گروپ کو ووٹ دیں گے؟ اس طرح ووٹ بینک بری طرح متاثر ہو گا اور عام انتخابات مٰں کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے یا دیگر طریقے میں ناکامی ہوسکتی کہ کونسا گروپ کنٹرول حاصل کرے گا۔ اب تک ایک سنی تحریک کے جھنڈے، ایک نشان، ایک نعرہ، ایک منشور چل رہا ہے، جبکہ کچھ علاقوں میں تصادم کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
ناظم آباد میں واقع سابق سربراہ سنی تحریک گروپ اعجاز قادری کے گھر کو عارضی مرکز بنا کر چلایا جارہا ہے۔ ثروت اعجاز قادری نے خود کو صدر سنی تحریک اور بلال سلیم قادری کو جنرل سیکریٹری منتخب کر لیا تھا، اب ان کی انتخابی سرگرمیاں جاری ہیں۔ بعض علاقوں میں جنرل ورکرز اجلاس جاری ہیں۔ تین چار روز قبل بلال سلیم قادری نے دعویٰ کیا تھا کہ نیو کراچی میں جنرل ورکرز اجلاس کی صدارت کر کے واپس آرہے تھے کہ راستے میں ان کی گاڑی پر حملہ کیا گیا۔ اس طرح دونوں گروپوں میں تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
ذمے داروں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ بعض سنی علما کرام نے دونوں گروپوں کو صلح کر کے ایک جگہ بیٹھنے کو کہا تھا، تاہم کرسی کی جنگ ہے اور کوئی اپنا عہدہ چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اس پالیسی سے پارٹی کو سیاسی نقصان ہو گا اور انتخابات میں کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ ذمہ داران اور کارکنان ایک دوسرے سے ملنے سے گریز کررہے ہیں کہ نجانے کون کس دھڑے کا ہمدرد ہو سکتا ہے۔ اب الیکشن کمیشن اور عدالتی فیصلوں کا انتظار کیا جارہا ہے۔