حسام فاروقی :
لیاری میں ایک بار پھر 8 گینگ وار گروپوں نے اپنے پنجے گاڑ دیئے ہیں۔ بلوچستان اور بیرون ملک سے لیاری اور اطراف کے علاقوں میں کاروبار کرنے والے افراد سے مختلف نمبروں سے انٹرنیٹ کی مدد سے کال کرکے بھتہ طلب کر رہے ہیں۔ گینگ وار کمانڈروں نے اپنے گروپوں میں نئے لڑکوں کو بھی شامل کرنا شروع کر رکھا ہے جس میں زیادہ تعداد ملیر، لیاری، مچھر کالونی، بلدیہ اور حب کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے لڑکوں کی ہے۔
تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ جن گروپوں کی جانب سے لیاری میں ایک بار پھر سے قابض ہونے کی کوششیں تیز کی گئی ہیں ان میں شکیل بادشاہ خان گروپ، وصی اللہ لاکھو گروپ، احمد علی مگسی گروپ، زاہد لاڈلہ گروپ، سلیم چا کلیٹی گروپ، تاج محمد عرف استاد تاجو گروپ، جمیل چھانگا گروپ اور بلال پپو گروپ شامل ہیں۔
ان میں سے کچھ گروپوں کو بیرون ملک سے اور کچھ گروپوں کو بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آپریٹ کیا جا رہا ہے۔ وصی اللہ لاکھو اس وقت ایران سے اپنا نیٹ ورک آپریٹ کر رہا ہے اور اپنے کارندوں کے ذریعے کھارادر، میٹھادر، لیاری، گلستان جوہر اور پرانی سبزی منڈی کے علاقوں سے بھتہ وصول کر رہا ہے۔ زیادہ تر شکار کاروباری حضرات اور بلڈر ہیں۔ اسی طرح انہی علاقوں سے استاد تاجو نامی گینگ وار کمانڈر بھی بھتہ وصول کر رہا ہے جو اس وقت سائوتھ افریقہ میں رپوش ہے اور وہیں سے اپنا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔
جمیل چھانگا ایران سے اپنا نیٹ ورک چلا رہا ہے اور اس کے کارندے گارڈن ایسٹ کے علاقوں اور ٹھارو لین میں بلڈروں کے ساتھ ساتھ دیگر کاروباری افراد سے بھتہ طلب کر رہے ہیں۔ سلیم چاکلیٹی نامی گینگ وار کمانڈر بھی ایران سے اپنے گروپ کو کراچی کے علاقوں گلبہار، پرانا گولیمار، فردوس کالونی اور خاموش کالونی میں بھتہ وصول کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ شکیل بادشاہ خان بھی بیرون ملک سے اپنا گروپ لیاری اور اطراف سے بھتہ وصول کرنے کے لئے آپریٹ کر رہا ہے۔
ایران سے ہی احمد علی مگسی بھی اپنا گروپ چاکی واڑہ اور بہار کالونی میں چلا رہا ہے اور ان علاقوں میں تعمیراتی شعبے سے وابستہ افراد سے بھتہ طلب کیا جا رہا ہے۔ ایران سے زاہد لاڈلہ بھی کراچی میں بھتے کا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ اس نے اپنے گروپ کو لیاری جنرل اسپتال سمیت پھول پتی لین اور عیدو لین میں متحرک کیا ہے۔ جبکہ بلال پپو نامی گینگ وار کمانڈر پاک کالونی، پرانا گولیمار اور جہان آباد کے علاقو ں میںاپنا گروپ چلا رہا ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ لیاری گینگ وار کے یہ تمام گروپس اب منشیات کے کاروبار کو بھی کراچی اور بلوچستان میں آپریٹ کر رہے ہیں۔ ان کے ذریعے منشیات کراچی کے متعدد تعلیمی اداروں میں بھی پہنچ رہی ہے۔ ان گروپس نے اسلحے کے حصول کے لئے مختلف کالعدم جماعتوں سے بھی رابطے شروع کر رکھے ہیں۔ جبکہ ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ میں بھی یہ گروپس ملوث ہیں، جنہوں نے حب شہر میں اپنے کئی ڈپمنگ پوائنٹس بنائے ہوئے ہیں جہاں ایران سے ڈیزل ، پیٹرول سمیت افغانستان سے پاکستان پہنچنے والی منشیات لا کر ڈمپ کی جاتی ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ لیاری کے کئی ایسے گروپ جو ماضی میں ایک دوسرے کے دشمن ہوا کرتے تھے، انہوں نے اب آپس میں اتحاد کر لیا ہے اور جو گروپ رہ گئے ہیں، ان کے مابین صلح کروانے کی بھی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ آپسی دشمنی میں گینگ وار گروپوں کا نقصان نہ ہو۔
دوسری جانب صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی اپنا کام لیاری میں پھر مضبوط انداز میں شروع کر دیا ہے اور مخبروں کے نیٹ ورک کو بھی فعال کیا گیا ہے۔ تاکہ لیاری گینگ وار کی جو باقیات دوبارہ سر اٹھا رہی ہیں ان کے سر بر وقت کچلے جا سکیں۔ جن جگہوں سے یہ گروپ بھتہ وصول کر رہے ہیں ان میں منشیات کے اڈے، جوئے کے اڈے ، گٹکے ماوے کے کارخانے اور غیر قانونی مذبح خانے بھی شامل ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تمام جرائم پورے لیاری میں پولیس کی سرپرستی میں چلائے جا رہے ہیں، جہاں سے ہفتہ وار بنیادوں پر پولیس کو لاکھوں روپے رشوت پہنچائی جاتی ہے۔