نمائندہ امت :
پاکستان تحریکِِ انصاف کے قیام کے ستائیس سال بعد پہلی بار عمران خان سائڈ لائن ہوگئے ہیں اور انٹرا پارٹی الیکشن میں بیرسٹر گوہر علی خان چیئرمین منتخب کرلیے گئے جن کے انتخاب کے ساتھ ہی ان کی حکمتِ عملی، وفاداری اور پی ٹی آئی کے مستقبل پر رائے زنی شروع ہوگئی ہے۔ عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان نے ایک بار پھر ایسا فیصلہ کیا ہے جس سے وہ سیاسی منظرنامے معدوم اور پی ٹی آئی مزید بکھر سکتی ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے کئی رہنما اس پر محتاط تبصرے کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے یہ فیصلہ ہمیشہ کی طرح کسی مشاورت کے بغیر اپنی ذاتی پسند سے کیا ہے جس کے نتائج کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ ان دنوں پی ٹی آئی کے بانی جیل میں ہیں۔ اس دوران پی ٹی آئی کے پچھلے انٹرا پارٹی الیکشن غیر شفاف قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن نے بیس روز کے اندر انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی مہت دی تھی۔ ان احکامات کی روشنی میں ہونے والے انٹرا پارٹی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے رہنما بیرسٹر اعتزاز احسن کے شاگرد بیرسٹر گوہرعلی کو بلامقابلہ چیئرمین منتخب کرلیا گیا۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ نامزدگی پی ٹی آئی بانی کی طرف سے کروائی گئی ہے لیکن بنیادی طورپر پی ٹی آئی کے اندر موجود پیپلز پارٹی کے ایک گروپ کو کامیابی ملی ہے اور وقت ملتے ہی پی ٹی آئی کی حکمتِ عملی پیپلز پارٹی کو فائدہ پہنچانے کیلئے استعمال ہوسکتی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکنان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی بانی نے درپیش حالات میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔
دو ہزار آٹھ میں وکلا تحریک میں منظرِ عام پر نظر آنے والے گوہر علی نے سنہ دو ہزار آٹھ میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن ہارنے کے بعد خاموشی اختیار کرلی تھی۔ پھر بیرسٹر اعتزاز احسن کے پیپلز پارٹی کے اختلافات اور عمران خان سے قربت سامنے آنے پر بیرسٹر گوہر علی بھی پی ٹی آئی میں نمایاں ہونا شروع ہوئے تھے، جس سے پی ٹی آئی کے دیرینہ اور سینئر قانون دان کھڈے لائن لگا دیے گئے تھے اور ان کی جگہ پیپلز پارٹی کے دوسرے رہنما سردارلطیف کھوسہ بھی پیپلز پارٹی سے اختلاف رائے رکھنے پر پی ٹی آئی بانی کے انتہائی قریب آگئے تھے۔ بیرسٹر گوہر کے انتخاب پر پی ٹی آئی کے جیل سے باہر اور ملک کے اندر موجود زیادہ تر رہنما خاموش ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وکلا کا ایک بڑا دھڑا بھی اس انتخاب پر خوش نہیں ہے اور سمجھتا ہے کہ ایک جونیئر کو سینئرز پر ترجیح دی گئی ہے اور قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس کا پی ٹی آئی کو خمیازہ بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
عمران خان کے قریب ترین کھوسہ خاندان سے جب بات کی گئی تو سردار خرم لطیف خان کھوسہ نے مختصر الفاظ میں کہا کہ وہ بیرسٹر گوہر علی کو چیئرمین منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیرسٹر گوہرعلی کے چیئرمین منتخب ہونے سے پی ٹی آئی کی کوئی پالیسی تبدیل ہونے یا موقف میں تبدیلی کا امکان نہیں۔ نہ ہی یہ خیال درست ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کیلئے سافٹ حالات پیدا کریں گے۔ بلکہ ساری کی ساری پالیسی عمران خان ہی کی چلنی ہے۔ جبکہ اس معاملے پر سینئر قانون دان حامد خان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر سرِ دست کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے بانی نے پارٹی کے نئے چیئرمین سے پہلے ہی ملاقات کے دوران یقین دہانی لے لی تھی اور تسلی کرلی تھی کہ وہ عمران خان کے کسی بھی موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اورنہ ہی بیانیہ تبدیل کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی بانی، پارٹی کے معاملات اور اس کی قیادت کے حوالے سے خاندان میں پیدا ہونے والے تنازعات کو بھی ہوا دینے سے گریز کررہے ہیں اور غالباً وہ کچھ تحفظات کا بھی شکار ہیں۔ جس کے بعد انہوں نے علی امین گنڈا پور کا نام خیبر پختونخوا کیلئے اور سوا سال پہلے تک نظر انداز کیے جانے والے علیم عادل شیخ کو سندھ کیلئے فائنل کیا تھا۔
آزادانہ رائے رکھنے والے سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ’’عثمان بزدار پلس‘‘ منتخب کرایا ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے ایک رہنما کے مطابق گوہر علی صرف وکلا طرز کی سیاست اور موقف آگے بڑھائیں گے۔ لیکن اصل معاملہ یہ سامنے آسکتا ہے کہ وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی اور صدرچودھری پرویز الٰہی اس معاملے کیسے ہضم کریں گے؟ یہ صورتحال پارٹی کیلئے خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔