سید حسن شاہ :
قیدیوں کیلئے جیل میں زندگی گزارنا دکھ، درد اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں۔ گھر والوں کی فکر راتوں کی نیندیں اڑا دیتی ہے۔ نمازوں میں بھی دعاؤں کے دوران رحم اور انصاف کے سوا کچھ نہیں مانگا جاتا۔ عدالتوں میں پیشیوں پر اہلکاروں کی سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ ضمانت کی آس ہو بھی تو زر ضمانت کیلئے پیسے نہیں ہوتے۔
سینٹرل جیل سے پیشی پر سٹی کورٹ آئے ہوئے قیدی محمد سکندر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ نارتھ کراچی الخیر اسکول کے قریب والدہ کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا۔ کم عمر میں ہی والد کے انتقال کے بعد والدہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر آگئی۔ اس لئے صرف انٹر تک تعلیم حاصل کی اور پھر چھوٹے موٹے کام کاج کرنے لگا۔ سکندر کے بقول ’’میں نے کئی جگہ ملازمتیں کیں۔ ایک فارما سیوٹیکل کمپنی میں ملازمت ملی۔ جہاں میں ایمانداری سے کام کر رہا تھا۔
والدہ سمیت گھر کے اخراجات آسانی سے پورے ہوجایا کرتے تھے۔ 8 جون 2023ء کو کام سے واپس گھر آ رہا تھا کہ سرجانی ٹاؤن کے بس اسٹاپ کے قریب سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے مجھے روکا۔ میری تلاشی لی تو کوئی غیر ممنوعہ چیز برآمد نہیں ہوئی۔ انہوں نے مجھ سے ہیلمٹ کا پوچھا۔ حالانکہ وہ ٹریفک اہلکار نہیں تھے۔ جب کافی دیر روکے رکھا تو میں نے انہیں غصے سے جواب دے دیا۔ جس پر ہماری بحث شروع ہوگئی اور وہ مجھے سرجانی ٹاؤن تھانے لے گئے۔ جہاں مجھ سے رشوت کا تقاضا کیا گیا جو میں نے منع کردیا۔ اس پر انہوں نے مجھے چوری ڈکیتی کے مقدمہ میں فٹ کردیا۔ مجھ پر تین آئی فون، ایک ویوو موبائل اور نوکیا موبائل چوری کرنے کا الزام لگایا گیا۔
میں گزشتہ 6 ماہ سے جیل میں قید ہوں۔ جیل میں رہتے ہوئے میں نے کمیونیکیشن اور کمپیوٹر کا کورس مکمل کرلیا ہے اور اب کرمنلوجی کا کورس کررہا ہوں‘‘۔ محمد سکندر نے اپنی والدہ کے حوالے سے زار و قطار روتے ہوئے بتایا کہ ’’میری والدہ گھر میں اکیلی ہیں۔ مجھے ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتا کہ وہ کس حال میں ہیں اور نہ ہی والدہ کو میرے بارے میں کوئی علم ہے۔ مجھے ہر وقت صرف اپنی والدہ کی فکر لگی رہتی ہے کہ میرے بغیر وہ کس طرح گزارا کر رہی ہوں گی۔ میری کوئی مدد کرنے والا نہیں۔ ضمانت کا انتظام ہوجائے تو جس دکھ اور درد سے گزر رہا ہوں۔ اس سے چھٹکارا مل جائے‘‘۔
ایک اور قیدی محمد حسین خان نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا ’’میں لائنز ایریا میں بھائیوں کے ساتھ رہائش پذیر ہوں۔ دو بہنوں کی شادی ہوچکی ہے اور میرے والدین انتقال کرچکے ہیں۔ میں علاقے میں ہی الیکٹریشن کا کام کرتا تھا۔ چند ماہ قبل پولیس میں بھرتیاں شروع ہوئیں تو میری بطور سپاہی بھرتی ہوگئی اور 14 مارچ 2023ء کو بھرتی کا لیٹر بھی مل گیا۔ اب مجھے ٹریننگ کیلئے جانا تھا۔
رمضان کا مہینہ تھا۔ 23 مارچ کو میں نے گھر پر ہی روزہ کھولا اور کچھ دیر بعد مجھے دوست کا فون آیا کہ میرا جھگڑا ہوگیا ہے۔ تم فوری طور پر آجائو۔ چونکہ علاقے میں ہی جھگڑا ہوا تھا تو میں وہاں پہنچ گیا۔ میں وہاں صلح کرانے کے ارادے سے گیا۔ مگر مخالف لڑکوں نے جھگڑے کو بڑھاتے ہوئے فائرنگ شروع کردی۔ جس کی زد میں، میں بھی آیا اور میرے پاؤں میں گولی لگ گئی۔ اس دوران بھگدڑ مچ چکی تھی۔ میں زخمی حالت میں اسپتال پہنچا۔ کچھ دیر بعد پولیس وہاں پہنچی اور مجھے حراست میں لے لیا۔
بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس فائرنگ کے دوران شیرا خان نامی شخص ہلاک ہوگیا ہے اور اس کے قتل کے مقدمہ میں مجھے گرفتار کیا گیا ہے۔ جبکہ میرے دو دوست شاہد اور ذیشان مفرور ہیں‘‘۔ محمد حسین خان نے مزید بتایا کہ ’’نہ میرا جھگڑا تھا اور نہ ہی کوئی دشمنی۔ صلح کرانے جانا میرا جرم بن گیا اور مجھے بے گناہ ہوتے ہوئے بھی گرفتارکرلیا گیا۔ مجھے اس بات کا شدید پچھتاوا ہوتا ہے کہ دوست کے پیچھے نہیں جاتا تو آج اچھی زندگی گزار رہا ہوتا۔
میری ایک ہی اپیل ہے کہ مجھے اس مقدمہ سے نکالا جائے۔ کیونکہ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ میں جیل میں بھی نمازوں میں یہی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مدعی مقدمہ کے دل میں رحم پیدا کردے۔ میں مقتول کی مغفرت کی بھی دعا کرتا ہوں‘‘۔
سٹی کورٹ میں پیشی پر آئے قیدی محمد بلال اور میر حسین نے بتایا کہ ’’ہم طارق روڈ کے ایک شاپنگ مال میں گارمنٹس کا کام کرتے تھے۔ تین ماہ قبل رات کو کام سے واپس گھر جارہے تھے کہ ہمیں رضویہ تھانے کی پولیس نے روکا اور تلاشی لی۔ لیکن کلیئر ہونے کے باوجود جانے نہیں دیا اور پیسوں کا تقاضا کیا۔ جس پر ہم نے انہیں پیسے دینے سے منع کردیا۔ پھر ہمیں پولیس موبائل میں بٹھا کر جمشید کوارٹر تھانے لے گئے اور اسی تھانے میں موجود چوری کی موٹر سائیکل کی برآمدگی ظاہر کرکے ہمیں فٹ کردیا۔ ہم نے زندگی بھر کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ محنت مزدوری کرکے خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ مگر اس کے باوجود محض رشوت نہ دینے پر جھوٹے مقدمہ میں فٹ کردیا گیا ہے‘‘۔