محمد قاسم :
صوبہ خیبرپختون میں تحریک انصاف خود اپنی جال میں پھنس گئی۔ سوشل میڈیا پر جلسوں کی اجازت نہ دینے کا واویلا کیا گیا تھا۔ اب اجازت دے کر حکومت بین الاقوامی اداروں کو یہ باور کرائے گی کہ پی ٹی آئی کے جلسے اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسے موقع دیا جارہا ہے اور یہ کہ تحریک انصاف کے پروپیگنڈے میں کوئی حقیقت نہیں۔
دوسری جانب ان جلسوں کا انعقاد کرنے والے ان لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، جو سانحہ 9 مئی میں ملوث ہیں۔ ذرائع کے مطابق خیبرپختون میں قومی اسمبلی کی صرف 45 سیٹیس ہیں۔ جن میں پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے درمیان مقابلہ ہے۔ ان سیٹوں میں سے پی ٹی آئی کو دیگر جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ حصہ مل سکتا ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کو پنجاب میں کوئی جلسہ کرنے نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ اصل معرکہ پنجاب میں ہے اور پنجاب میں جیتنے والی پارٹی ہی ملک میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئے گی۔
پی ٹی آئی کی حکومت میں ایک اہم عہدے پر رہنے والے رہنما نے جو روپوش ہے، ’’امت‘‘ کو بتایا کہ خیبرپختون میں جلسے ہو رہے ہیں۔ لیکن ان جلسوں کے بعد ان کو منظم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔ جن کے خلاف سانحہ 9 مئی کی ایف آئی آر درج ہیں۔ جب بھی ان جلسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے تو انعقاد کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں وہ رہنما جو انتخابات جیت سکتے ہیں، سارے روپوش ہیں۔ لوگ جلسوں میں آرہے ہیں۔ تاہم اندرون خانہ کارکنوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔
ذرائع کے بقول پرویز خٹک، مولانا فضل الرحمن، اجمل ولی اور سراج الحق کے جلسوں کے بعد ان کے کارکنوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔ جب پنجاب میں اجازت نہیں دیں گے تو خیبرپختون میں پی ٹی آئی کے جلسوں سے تبدیلی نہیں آئے گی۔
ادھر پرویز خٹک کے قریبی ذرائع نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کی پارٹی میں پی ٹی آئی کے لوگوں کو شامل کرنے کیلیے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد پارٹی میں لوگ شامل ہوں گے۔
دوسری جانب ایک اہم ذریعے کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی خیبرپختون میں شیر افضل مروت کی وجہ سے کئی گروپ بن جائیں گے۔ کیونکہ شیر افضل مروت کس کے کہنے پر جلسے کر رہے ہیں؟ کسی کو معلوم نہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کے اندر بھی اس حوالے سے خاصے شکوک پائے جاتے ہیں کہ شیر افضل مروت کی گرفتاری کا ڈرامہ کیا جارہا ہے۔ ان کو گرفتار کر کے دوبارہ رہا کردیا جاتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ کارکنوں نے رہا کرایا۔ جبکہ دوسری طرف دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر کئی رہنمائوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق کئی مقامی رہنمائوں کو یہ موقع دیا جا رہا ہے کہ وہ لوگوں کو اس خاص وقت میں اکٹھا کر کے ٹکٹ حاصل کریں اور سابق قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان اور وزرا کو ٹکٹ سے محروم کر دیا جائے۔
ذرائع کے مطابق انتخابات پر اثرانداز ہونے والوں کی کوشش ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو تقسیم کیا جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ عمران خان اپنے پرانے ساتھیوں کو ٹکٹ دینے کے حق میں ہیں۔ جبکہ موجودہ چیئرمین اپنے گروپ کے وکلا کو ٹکٹیں دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان کے اہم ساتھی روپوش ہیں اور باہر آنے سے گریز کر رہے ہیں۔ کیونکہ اکثر رہنمائوں پر سانحہ 9 مئی کے حوالے سے پرچے درج ہیں۔
جبکہ انتخابات میں تقریباً 50 دن باقی رہ گئے ہیں۔ خیبرپختون میں شیر افضل مروت کے جلسے پی ٹی آئی ان رہنمائوں کیلئے خطرہ ہیں۔ جو 2011ء سے اسمبلی کے رکن رہے ہیں اور آج کل روپوش ہیں۔ بہت سے ارکان کے قریبی ذرائع کے مطابق اگر روپوش رہنمائوں کو ٹکٹ نہ ملا تو وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے۔