کراچی : اسٹیٹ بینک کے بڑے عہدوں پرعرصے سےتقرریاں نہ ہوسکیں،اہم اموردرہم برہم،گورنراسٹیٹ بینک خاموش تماشائی بن گئے،تفصیلات کےمطابق اسٹیٹ بینک میں کمزورانتظامی فیصلہ سازی کی وجہ سےمرکزی عہدے طویل عرصےسےتقرری سےمحروم ہیں،مرکزی عہدوں پرتقرری نہ ہونےسےاہم اموردرہم برہم ہوگئے۔ذرائع کےمطابق ڈپٹی گورنر پالیسی سیدمرتضیٰ جنوری 2023 کوسبکدوش ہوگئے،اکنامک ایڈوائزراسٹیٹ بینک ڈاکٹرسعیداحمدورلڈبینک چلےگئے،اسی طرح ایگزیکٹوڈائریکٹراسٹیٹ بینک مانیٹری پالیسی علی چوہدری بھی ملک چھوڑکرباہرچلےگئے جبکہ ایگزیکٹوڈائریکٹرایچ آر بھی قاسم نواز بھی ادارے سےسبکدوش ہوچکے ہیں،کوئی متبادل نہ ہونےکی وجہ مرکزی بینک کے4اہم عہدے عرصہ درازسےخالی ہیں۔
ذرائع کےمطابق اکنامک ایڈوائزر،ڈی جی مانیٹری پالیسی اورایچ آرکےشعبےسینٹرل بینک کےکورایشوزسےمتعلق عہدے ہیں جن پرفوری تعیناتی کردیناچاہیے تھی لیکن کمزورفیصلہ سازی کےباعث ایسانہیں کیاگیا،اسوقت اسٹیٹ بینک کےگورنرجمیل احمدہیں جبکہ ڈپٹی گورنرزمیں ڈاکٹرعنایت حسین اورسلیم اللہ شامل ہیں،کچھ عرصہ قبل پالیسی ایکسپرٹ ڈاکٹرسعیداحمدکانام ڈپٹی گورنرگردش کرنےلگا،اہلیت کاحامل ہونےکےباوجودناگزیروجوہات کےباعث انکی تعیناتی موخرکردی گئی، 4بڑےعہدوں پرتعیناتی میں تاخیراسٹیٹ بینک کی خودمختاری وانتظامی کمزوریوں کی عکاسی کرتاہےدوسری جانب اہم اموربھی بری طرح متاثرہورہے ہیں تاہم بینک میں ڈائریکٹرزکی سطح پراندرونی ترقیوں کاسلسلہ جاری ہے۔
بعض سینئرافسران نےگورنراسٹیٹ بینک کوصورتحال کاذمہ دارقرار دیتے ہوئےکہاہےکہ اہم انتظامی عہدوں پرتعیناتی کےاحکامات کہیں اورسےآتے ہیں،اسی لئےطویل عرصہ سےادارے کےاہم عہدے اب بھی خالی رکھےگئے ہیں، 4بڑےانتظامی عہدوں کی اہمیت کے پیش نظروزیراعظم پاکستان،نگراں وزیرخزانہ وگورنراسٹیٹ بینک کوایسےمعاملات کاسنجیدگی سےنوٹس لیناچاہیےکیونکہ پاکستان کامرکزی بینک اس طرح کےطرزعمل کامتحمل نہیں ہوسکتا،ترقی وتقرری کےفیصلےخالص میرٹ کی بنیادپرکرنےسےملک کامرکزی ادارہ مضبوط ہوگااورمعاشی ترقی کاسفربھی آگے بڑھےگا۔اس ضمن میں مرکزی بینک کے چیف اسپوکس مین نوراحمد نےکال اورمیسجزکاجواب نہیں دیاجبکہ سربراہ ای آرڈی خبیب عثمانی نےموقف دینےسےگریزکیا۔