محمد قاسم :
برطانیہ کے بعد جرمنی نے بھی اپنے لیے کام کرنے والے افغان جاسوسوں کو پاکستان سے نکالنا شروع کردیا ہے۔ پہلی پرواز 188 افغانوں کو لے کر جرمنی پہنچ گئی، جنہیں ناٹو کے ایک پرانے فوجی اڈے میں رکھنے کا پروگرام ہے۔
ذرائع کے مطابق امریکی قبضے کے دوران امریکہ سمیت ناٹو افواج کے ساتھ بطور جاسوس کام کرنے والے افغانوں اور غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے حوالے سے پاکستان کے دوٹوک موقف اپنانے پر برطانیہ نے پاکستان سے اپنے افغان جاسوسوں کو نکالنے کے لئے 31 دسمبر 2023ء تک کا وقت حاصل کرلیا تھا اور 15 نومبر کے بعد برطانیہ سے اسلام آباد سے سینکڑوں افغان باشندوں کو نکالا جا چکا ہے۔
امریکا سمیت ناٹو کے دیگر ممالک نے ماضی کی طرح اس بار بھی پاکستان پر مختلف ذریعوں سے دبائو ڈالا کہ ان افغانوں کو پاکستان سے نہ نکالا جائے۔ پاکستان کی جانب سے یکم نومبر تک کے ڈیڈ لائن کے بعد آپریشن کے آغاز اور جعلی شناختی کارڈز سمیت روپوش ہونے والوں کے خلاف کارروائیوں کے بعد جرمنی نے بھی جرمن فوج کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کو جرمنی سے جانے کے لئے آپریشن کا آغاز کردیا ہے اور ذرائع کے مطابق یہ آپریشن 31 جنوری 2024ء تک جاری رہے گا۔
گزشتہ روز پہلی پرواز 188 افغان باشندوں کو لے کر جرمنی روانہ ہوئی اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ان افغان شہریوں کو ناٹو کے سابق فوجی اڈے پر رکھا جائے گا اور پھر آہستہ آہستہ مختلف شہروں میں منتقل کردیا جائے گا۔ ان باشندوں کو جرمن زبان اور ثقافت کے حوالے سے تربیت دی جائے گی اور بعد میں انہیں کام کرنے دیا جائے گا۔ مکمل چھان بین تک انہیں 800 سے 1200 یورو ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق افغانستان میں طالبان کی فتح کے وقت تقریباً 6 لاکھ سے زائد افراد کو امریکہ سمیت ناٹو ممالک نے انہیں اپنے اپنے ممالک لے جانے کے لئے پاکستان ، دبئی ، قطر ، بحرین منتقل کردیا تھا۔ پاکستان سے ان جاسوسوں کو 31 مارچ 2023ء تک نکالنا تھا۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی وجہ سے حکومت کی توجہ اپوزیشن کی جانب تھی۔ جس کی وجہ سے ان افراد نے پاکستان کے مختلف شہروں کو رہائشی اختیار کی۔ تاہم پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کا ان پر مسلسل نظر تھی اور موجودہ آرمی چیف نے پاکستان میں امن کے قیام کے لے جو اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی، اس میں ان افراد کو نکالنا اولین ترجیح تھی کیونکہ یہ لاکھوں جاسوس پاکستان کی سیکورٹی کے لئے خطرہ ہیں۔
برطانیہ اور جرمنی کے بعد دیگر ناٹو ممالک نے بھی اپنے اپنے جاسوس لے جانے پر غور شروع کردیا ہے اور دیگر ممالک بھی اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کی جانب سے دوٹوک موقف اپنانے کے بعد امریکہ نے بھی پاکستانی حکام کو تقریباً 20 ہزار افغان باشندوں کی ترجیحی فہرست دی ہے اور درخواست کی ہے کہ ان کو امریکہ لے جانے کے لئے وقت دیا جائے۔
ذرائع کے مطابق امریکا نے کرسمس کے بعد ان افغانوں کو امریکہ منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، تاہم امریکی انتخابات میں ایک سال سے کم عرصہ رہ گیا ہے۔ اور امریکی انتخابات میں امیگریشن ایک بڑا ایشو ہے اور امریکی حکام کی کوشش ہے کہ ان افغانوں کو امریکہ منتقل کرنے کے لئے وقت دیا جائے۔
دوسری جانب برطانیہ نے قطر کی توسط سے افغان طالبان سے 200 سابق افغان فوجیوں کی ملک سے باہر جانے پر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور ان سابق فوجیوں کو قطر کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور انہیں برطانیہ منتقل کرنے کی ہامی بھری ہے۔ تاہم طالبان حکومت نے ان سابق افغان فوجیوں کو خبردار کیا ہے کہ ملک سے فرار کی صورت میں ان کے خاندان کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہوگا اور ان کو پاسپورٹ جاری کرنے پر بھی پابندی عائد کی ہے۔ طالبان ذرائع کے مطابق ان سابق فوجیوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا، لیکن اگر انہوں نے افغانستان سے فرار کی کوشش کی تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔