نمائندہ امت :
کراچی میں دھڑلے سے فروخت کی جانے والی مختلف اقسام کی منشیات نوجوان نسل کو تباہ و برباد کرنے کے ساتھ ساتھ بے دردی سے کئے جانے والے قتل کی وارداتوں کی بھی بنیادی وجہ قرار دی جا رہی ہے۔
اسٹریٹ کرائمز ملوث زیادہ تر ملزمان بھی منشیات استعمال کرنے کے بعد وارداتیں کرتے ہیں۔ اور نشے میں ہوش کھونے پر وہ معمولی مزاحمت کرنے پر، یا بلاوجہ گولیاں چلانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ چناں چہ رواں سال بھی سینکڑوں شہری ان نشئی رہزنوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔
گزشتہ ماہ ایک ایسے دردناک قتل کے واردات بھی سامنے آئی، جس میں ارشد بلوچ نامی شخص نے نشے کی زیادتی کی وجہ سے اپنے تین بچوں اور اہلیہ کو تیز دھار آلے سے گلا کاٹ کر قتل کر دیا تھا۔ 30 نومبر کی شب گلستان جوہر کے علاقے میں پولیس کو اطلاع ملی کہ ایک مقامی گھر میں موجود خاتون صائمہ زوجہ ارشد بلوچ اور اس کے تین بچوں 9 سالہ اشہد، 7 سالہ شاہرین اور 2 سالہ عبدالاحدکو گلا کاٹ کر قتل کر دیا گیا ہے۔
پولیس نے موقع پر پہنچ کر لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لئے اسپتال منتقل کیا۔ کیس کی تفتیش میں پولیس نے مقتولہ صائمہ کے شوہر ارشد بلوچ کو حراست میں لے لیا جس نے ابتدائی طور پر تو اس واردات کا اعتراف نہیں کیا۔ مگر جب پولیس نے ارشد بلوچ کے ساتھ سختی کی تو اس نے اس واردات سے پردہ اٹھا دیا جس کے بعد پولیس نے ارشد بلوچ کے ایک بھائی کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔
کیس کے تفتیشی افسر اکرم کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ، مر کزی ملزم ارشد بلوچ اس واردات کے وقت نشے کی حالت میں تھا جس کا علاقے میں کیبل ٹی وی کا کاروبار ہے۔ ملزم کا اپنی اہلیہ سے نشے سے منع کرنے پر جھگڑا ہوا تھا جس پر اس نے پہلے اپنی اہلیہ اور اس کے بعد خوف سے سہمے اپنے بچوں کو ایک کے بعد ایک کرکے تیز دھار چھری سے ذبح کیا اور پھر اپنے بھائی کو اطلا ع دے کر اس کے پاس ڈالمیا چلا گیا۔ اس کے بھائی نے کیس کے اہم شواہد مٹانے میں ارشد بلوچ کی مدد کی۔ جس کی وجہ سے اسے بھی قتل کی واردات میں معاونت فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔
دوسری جانب اسپیشل برانچ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس جیسی ان گنت سفاک قتل کی وارداتیں ہیں جو کراچی میں مختلف برسوں میں ہوئی ہیں۔ جس میں ملزم یا ملزمان نے نشے کی زیادتی میں اپنے ہی پیاروں کو موت کے گھاٹ اتارا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے پاکستان بلخصوص کراچی میں پرانے طرز کی ہی منشیات کی فروخت ہوتی تھی جس میں چرس، افیون ، گانجا، اور ہیروئن شامل تھیں۔ جس کا نشہ کرنے والا شخص صرف اپنی صحت کو نقصان پہنچاتا تھا۔ مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منشیات تیار کرنے والوں نے اس میں مزید جدت اور سفاکیت پیدا کر دی ہے اور اب پاکستان سمیت کراچی کے مختلف علاقوں میں لاطینی امریکہ سے آنے والی جدید طرز کی منشیات بھی دھڑلے سے فروخت کی جا رہی ہے، جسے پارٹی ڈرگز کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
ان جدید طرز کی منشیات کا شکار نوجوان طبقہ ہو رہا ہے، جس میں ایک بڑی تعداد لڑکیوں کی بھی شامل ہے۔ جدید طرز کی منشیات میں آئس، کرسٹل، ڈانسنگ پلز اور زومبی پلز شامل ہیں جن کا اثر انسانی جسم اور دماغ پر ہیروئن سے 100گنا زیادہ ہوتا ہے اور انسان اپنی سوچنے سمجھے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اور قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
اسپیشل بر انچ ذرائع کا کہنا ہے کہ گلستان جوہر میں ہونے والی قتل کی لزرہ خیز واردات میں ملوث ملزم بھی زومبی ڈرگز کا استعمال کرکے آیا تھا۔ جبکہ اس حوالے سے کہ ملزم کو یہ نشہ کہاں سے مل؟ا پولیس کچھ بھی کہنے سے قاصر ہے یا جان بوجھ کر یہ نشہ فروخت کرنے والے افراد پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں لیاری گینگ وار کے اہم کردار ارشد پپو کو جس بے دردی سے قتل کرکے اس کے کٹے ہوئے سر کے ساتھ ملزمان نے فٹبال کھیلی تھی اور پھر اس کی لاش کو جلا کر اس کی باقیات کو گٹر میں بہایا تھا، اس کے پیچھے بھی نشے کی زیادتی شامل تھی۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں کے ساتھ ساتھ چوری چکاری کی وارداتوں میں جو لوگ ملوث ہیں ان میں زیادہ تعداد نشے کے عادی افراد کی ہے جو کہ واردات کرنے سے قبل ہر طرح کا نشہ کرکے نشے میں دھت ہوتے ہیں۔
اب تک سینکڑوں شہری ان سفاک ملزمان کے ہاتھوں اپنی قیمتی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ پولیس سے مقابلہ کرنے میں بھی یہ نشے کے عادی ملزمان نہیں چوکتے ہیں جس کی وجہ سے کئی پولیس اہلکار بھی شہید ہوئے ہیں۔ اب تو آن لائن بھی منشیات کی فروخت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اس کے ساتھ ساتھ کراچی کے زیادہ تر تعلیمی ادارے بھی منشیات فروشوں کے نرغے میں آچکے ہیں۔