فائل فوٹو
فائل فوٹو

پی ٹی آئی کی سازش عدلیہ نے بروقت ناکام بنا دی

نواز طاہر:
قانونی و سیاسی ماہرین کے بقول الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی عمل مکمل کرنے کیلئے سول انتظامیہ سے افسروں و عملے کی خدمات کے حصول کو چیلنج کرکے انتخابی عمل رکوانے کی باقاعدہ منظم کوشش کی گئی۔ جسے عدلیہ نے ناکام بنا دیا۔ جبکہ انتخابی عمل رکوانے کی کوشش کی اس ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کے حلقوں نے اپنی سازش کو ’’مخصوص حلقوں‘‘ کی کوشش قرار دینا شروع کر دیا ہے اور الزام لگایا جارہا ہے کہ ’’مخصوص حلقے‘‘ ابھی نگران سیٹ اپ مزید چلانا چاہتے ہیں۔ لیکن دیگر سیاسی رہنما اور سیاسی مبصرین اسے بے بنیاد الزام قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر پی ٹی آئی کی سازش ناکام ہوئی ہے اور سیاسی و جموری عمل کو آگے بڑھانے کیلئے عدلیہ نے بروقت اپنا کردار ادا کیا۔

واضح رہے کہ کچھ روز قبل لاہور ہائیکورٹ نے سول انتظامی افسروں کو ریٹرننگ افسر مقرر کرنے کا الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا۔ جس سے انتخابی عمل رکنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا تھا۔ لیکن چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل بنچ نے ہائیکورٹ کا یہ عبوری حکم معطل کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کو مزید کارروائی سے بھی روک دیا۔

ہائیکورٹ میں سول افسران کو ریٹرننگ افسر مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن پی ٹی آئی کے رہنما عمیر نیازی نے چیلنج کیا تھا اور اس پر عبوری حکم کے خلاف الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس عمل کو روکنے کیلئے پی ٹی آئی کے رہنما عمیر نیازی کی درخواست کو انتخابی عمل میں رخنہ ڈالنے سے تعبیر کیا اور ہائیکورٹ کے عبوری حکم پر بھی سوال اٹھایا ہے۔

سینئر سیاسی کارکنوں اور جمہوریت کی بحالی کی تحریک میں اہم کردار ادا کرنے والے رہنمائوں سید منظور علی گیلانی ایڈووکیٹ اور جہانگیر اشرف وینس ایڈووکیٹ کا انتخابی عمل میں انتظامی افسران کی خدمات اور اس عمل کو چیلنج کرنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان میں انتخابی عمل غیر شفاف ہونے کے حوالے سے ہر دور میں ہی انگلی اٹھی ہے۔ لیکن جہاں تک انتخابی عمل میں انتظامی افسران کی خدمات کا معاملہ ہے، تو سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی آبادی کے ملک میں کیا سول انتظامیہ کی مدد کے بغیر الیکشن کروانا ممکن ہے؟ اس ملک میں عدلیہ اور فوج اور سبھی اداروں کی مدد سے الیکشن ہوتے رہے ہیں۔

ہر الیکشن کے بعد الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ لیکن ایسا کبھی کسی سیاسی جماعت نے نہیں کیا کہ وہ انتخابی عمل کو عین اس وقت رکوانے کی طرف قدم اٹھائے، جیسے اس وقت پی ٹی آئی نے اٹھایا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے تحفظات ہوتے ہیں۔ لیکن الیکشن رکوانے تک لے جانے والی کوشش کبھی نہیں کی جاتی۔ بادی النظر میں یہ اقدام تو الیکشن رکوانے کی سازش ہے۔

اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ عدلیہ نے بر وقت اہم کردار ادا کیا۔ نون لیگ کے رہنما و سابق رکن پنجاب اسمبلی رانا مشہود احمد کا کہنا تھا کہ، پی ٹی آئی اپنی شکست کو سامنے رکھتے ہوئے فرار کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے اور اس نے الیکشن ایک سازش کے تحت رکوانے کی کوشش کی۔ درحقیقت غیر جمہوری اذہان ہی غیر جمہوری اور غیر سیاسی عمل کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اس عمل اور اس سازش کے کردار بھی خود ہی سامنے آجائیں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے قائم مقام صدر رانا فاروق سعید نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ کی طرف سے معطل کیے جانے کو پاکستان، جمہوریت اور پارلیمنٹ کیلئے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا، چیف جسٹس فائز عیسی کی قیادت میں 3 رکنی بنچ نے ملک میں عام انتخابات کے عمل کو ڈی ریل ہونے سے بچا لیا ہے۔ پیپلز پارٹی ملک میں بروقت انتخابات کی شروع دن سے داعی تھی اور ہے۔ عدالت عظمیٰ کو اس اہم فیصلے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے جنرل سیکریٹری سید حسن مرتضیٰ نے بھی متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ، انتخابی عمل کو پٹری سے اتارنے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ غیر جمہوری جماعتوں کا اصل چہرہ قوم کے سامنے آگیا۔ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی سازش کرنے والے عوام دشمن ہیں۔ پیپلزپارٹی انتخابی عمل پر یقین رکھتی ہے۔ کندھوں پر بیٹھ کر آنے والے اب ووٹ کی طاقت سے گھبرا رہے ہیں۔

دوسری جانب سینئر قانون دان کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کروانے کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کیلئے اور الیکشن کروانے کے اپنے ہی حکم کی تعمیل و عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے لاہور ہائیکورٹ کا عبوری حکم معطل کیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن آٹھ فروری کو ہورہے ہیں اور سپریم کورٹ نے اسی کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو اختیار حاصل ہے کہ وہ انتخابی عمل کیلئے عدلیہ یا انتظامیہ سے افسران اور عملے کی خدامات حاصل کرے۔

اگر عدلیہ نے انتخابی عمل کیلئے افسر و عملہ دینے سے معذوری کا اظہار کیا تو سول انتظامیہ سے سرکاری عملے کی خدمات حاصل کر لی گئیں، جو ایک قانونی عمل ہے۔ ادھر انتخابی عمل کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ اب تک جتنے بھی عام انتخابات ہوئے۔ ان میں سول انتظامیہ کا اہم کردار رہا۔ انتخابی عمل میں اہم کام سیاسی جماعتوں کی قیادت اور کارکنوں کا ہوتا ہے کہ وہ اپنے انتخابی مفادات کا سرعت کے ساتھ تحفظ کریں۔