محمد قاسم :
افغان حکومت نے پاکستان میں حملوں کیلیے افغان سرزمین کے استعمال کے حوالے سے پاکستان سے دوٹوک بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ مسئلے کا حل نکالنے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بحال رکھنے کیلیے مولانا فضل الرحمن اور دیگر علما کو کابل کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے۔
جے یو آئی سربراہ کے قریبی ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے مسئلے کو حل کرنے کی افغان حکومت کی سنجیدہ کوششوں کی صورت میں ثالثی پر رضامندی ظاہر کی۔ ذرائع کے مطابق ڈی آئی خان اور دیگر علاقوں میں حملے کرنے والے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کرنے اور مطلوبہ افراد کو پاکستان کے حوالے کرنے کے مطالبے کے بعد افغان حکومت پر دبائو بڑھ گیا ہے۔ جبکہ کچھ عناصر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ جن میں ٹی ٹی پی کے لوگ بھی شامل ہیں۔
ادھر افغان طالبان کے اہم رہنمائوں میں یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ اگر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو خراب کرنے سے نہ روکا گیا تو مستقبل میں افغان طالبان کو سخت مشکلات کا سامنا ہو گا۔ کیونکہ افغانستان میں گوریلا جنگ انتہائی آسان، جبکہ شہروں کا دفاع ایک مشکل کام ہے۔ طالبان کو بخوبی علم ہے کہ وہ گوریلا جنگ کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
دوسری جانب باوثوق ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ افغان طالبان کے مخالف اتحاد متحدہ جبہ (متحدہ اپوزیشن) نے پاکستان کے ساتھ روابط بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور بعض رہنمائوں نے امریکہ اور جرمنی کے ذریعے رابطے بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ کچھ سابق جہادیوں سے روابط دوبارہ بحال کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ جس میں استاد ربانی کے صاحبزادہ صلاح الدین ربانی، جمعیت اسلامی کے یونس قانونی، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، استاد سیاف، جنرل اسماعیل خان اور دیگر شامل ہیں۔
سابق جہادیوں نے حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کو طالبان کے خلاف کرنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن حکمت یار نے طالبان کے خلاف کسی بھی محاذ کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔گلبدین حکمت یار نے رابطہ کار رہنمائوں سے کہا کہ ان کے طالبان کے ساتھ کئی مسائل پر اختلاف ہیں۔ جن میں خواتین کی تعلیم پر پابندی اور ملک میں دیگر اسلام پسندوں کے مطالبات پر غور نہ کرنا ہے۔ تاہم حزب اسلامی اور طالبان کا امریکہ کے خلاف یکساں موقف ہے۔ وہ طالبان کو وقتاً فوقتاً مسائل سے آگاہ کرتے رہیں گے۔ لیکن ان کے خلاف کسی مہم کا حصہ نہیں بنیں گے۔
کابل میں موجود زرائع کے مطابق امریکہ اور یورپ کو چین کی افغانستان میں سرگرمیوں پر تشویش ہے۔ کیونکہ چین بھی مستقبل میں طالبان سے وہ کام لے گا۔ جو آج کل ایران حوثیوں سے لے رہا ہے۔ چین مستقبل میں افغانستان کو فوجی اڈے کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ جس سے آبنائے ہرمز اور بحر ہند غیر محفوظ ہو جائے گا۔
افغان اپوزیشن نے امریکی آشیرواد کے بعد طالبان کو دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ ذرائع کے مطابق طالبان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بحال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اسی لیے طالبان نے فیصلہ کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور دیگر علما کے ذریعے پاکستان کے ساتھ ٹی ٹی پی کے مسئلے پر حل نکالا جائے۔
ذرائع کے مطابق کچھ عرصے سے طالبان نے اس حوالے سے کوشش شروع کر دی ہے اور ٹی ٹی پی کی جانب سے حالیہ کارروائیاں دبائو بڑھانے کا ایک حربہ ہے۔ ادھر افغانستان میں وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانع کا ایک اہم بیان سامنے آیا ہے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران تحریک طالبان پاکستان کے تین درجن سے زائد لوگوں کو افغانستان میں گرفتار کیا گیا ہے۔یہ بیان سوشل میڈیا پر دیکھا گیا ہے۔ جس کے تحت انہوں نے یہ بیان افغان ٹی وی ’’طلوع‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے دیا۔
قانع سے منسوب بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وقت ٹی ٹی پی کے چالیس کے قریب لوگ زیرحراست ہیں جو مختلف جیلوں میں بند ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان اور افغانستان کے بیج اہم ترین رابطے ہوئے ہیں۔ عبدالمتین قانع نے اپنے بیان میں اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ ٹی ٹی پی کے گرفتارافراد میں کوئی اہم رہنما بھی شامل ہے یا نہیں اور یہ کہ انہیں پاکستان کے حوالے کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔