سید نبیل اختر:
دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ان کے دونوں صوبائی حلقے کے امیدواروں کی شکست کی اصل وجہ لیاری کے جیالوں کی تقسیم تھی۔ پارٹی ٹکٹ پر الیکشن جیتنے والے امیدوار ہی اپنے چیئرمین کے مدمقابل تھے۔ گروپ بندی کا شکار پیپلز پارٹی لیاری سے ہار گئی اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر ایم این اے شکور شاد، ٹی ایل پی کے رکن سندھ اسمبلی کے امیدوار یونس سومرو اور جماعت اسلامی کے امیدوار سید عبدالرشید نے بے نظیر بھٹو کے حلقہ انتخاب سے پی پی کو شکست دی۔
2023ء کے عام انتخابات میں چیئرمین بلاول بھٹو کے کاغذات نامزدگی جمع نہ ہونے کے باعث لیاری سے ٹکٹ کے خواہشمند جیالوں نے ایک دوسرے کے خلاف کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ ان دنوں لیاری میں پی پی کے 4 گروپس بن چکے ہیں۔ نبیل گبول، ان کا بیٹا نادر گبول، ضلعی صدر خلیل ہوت، کراچی کے جنرل سیکریٹری جاوید ناگوری، سابق سینیٹر یوسف بلوچ اور پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے عثمان ہنگورو ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔
الیکشن کمیشن کے فارم 31 کے مطابق این اے 239 کراچی سائوتھ ون لیاری سے کل 31 امیدواروں کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ جن میں محمد ارشاد، شائستہ امیر، عبدالوہاب، امین اللہ، سلیمان خان، محمد اختر، عبدالشکور شاد، گلستان خان، نادرگبول، سردار نبیل احمد گبول، سید عبدالرشید، فضل الرحمن نیازی، مولانا نورالحق، محمد قاسم، محمد شرجیل گوپلانی، رشید موسیٰ، حمزہ ، سعید احمد، سجاد علی، قیصر احمد ترین، انور شاہ، حبیب اللہ خان، خالد، محمد یاسر، عبدالرشید ہارون، فیصل الانہ، محمد یوسف، مولا بخش سومرو، سیف علی، فیصل جمال اور محمد جاوید شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق نون لیگ کی جانب سے ماضی کے برعکس کسی بھی بڑی شخصیت نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔ جس کی بڑی وجہ لیاری سے بلدیاتی انتخابات میں نون لیگ کو محض 2 ہزار ووٹ ملنا بتایا جاتا ہے۔ فیصل جمال دشتی نون لیگ کی جانب سے ایم این اے کے امیدوار ہوسکتے ہیں۔ تاہم پارٹی ٹکٹ کے حوالے سے ان کا نام ابھی فائنل نہیں ہوا۔ دوسری جانب لیاری سے 2010ء میں ایک صوبائی اسمبلی جیتنے والی پارٹی جماعت اسلامی نے فضل الرحمن نیازی کو بطور ایم این اے امیدوار فائنل کردیا ہے۔ جے یو آئی کی طرف سے مولانا نورالحق قادری امیدوار ہوں گے۔ تاہم تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے ایم این اے کیلئے کئی افراد نے درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ جن میں یاسر بلوچ اور حبیب اللہ خان نیازی بھی شامل ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے کاغذات نامزدگی نہ آنے پر پہلے نبیل گبول اور ان کے بیٹے نادر گبول نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تو بلدیاتی انتخابات میں کامیابی دلانے والے اہم کردار سینیٹر یوسف نے بھی ایم این اے کیلئے اپنے کاغذات جمع کرادیئے۔ نبیل گبول اور ان کے خاندان کی جانب سے کاغذات نامزدگی کی اطلاع ملنے پر جاوید ناگوری، رشید ہارون اور حاجی قاسم نے بھی کاغذات جمع کرادیئے۔ تاہم قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔
2018ء میں پارٹی چیئرمین کے خلاف انتخابات لڑنے والے جیالے ان دنوں ضلعی صدر اور پی ایس 107 کے امیدوار خلیل ہوت کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ لیکن پارٹی میں اہم کردار ادا کرنے والے سابق سینیٹر یوسف بلوچ، خلیل ہوت کی سفارشات کے خلاف ہیں۔ خلیل ہوت نے ناراض جیالوں کو ایک ڈیل کے ذریعے اپنی حمایت کیلئے منایا ہے۔ جس میں جیتنے کی صورت میں سابق ٹائون ناظم ملک فیاض کو ٹائون ناظم بنانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
حالیہ دنوں ٹائون ناظم ناصر کریم بلوچ سابق سینیٹر محمد یوسف کی سفارشات پر بنائے گئے۔ جنہیں اقبال ہنگورو بطور وائس چیئرمین دیا گیا۔ تاکہ لیاری کی بڑی برادری ’’ہنگورو‘‘ کی احساس محرومی دور کی جاسکے۔ لیاری میں کچھیوں کی دوسری برادری ’’سنگھار‘‘ سے ووٹ حاصل کرنے کیلئے شازیہ کریم سنگھار کو ریزرو سیٹ پر ایم پی اے بنایا گیا تھا۔
2018ء میں ان کا نام آٹھویں نمبر پر تھا اور اب 23 ویں نمبر پر ہے۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ پارٹی سنگھار برادری کو محض لالی پاپ دے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے کاغذات نامزدگی میں جو بڑے نام سامنے آئے ہیں۔ ان میں نبیل گبول، نادر گبول، سینیٹر یوسف بلوچ ، یوسی ناظم رشید ہارون، جاوید ناگوری، حاجی قاسم، عثمان ہنگورو، محمد حسین سومرو، عبداللہ رحیم بلوچ شامل ہیں۔ پی پی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پارٹی نے نبیل گبول کو ایم این اے کا ٹکٹ دیا تو سینیٹر یوسف بلوچ اور رشید ہارون کی مخالفت انہیں جیتنے نہیں دے گی۔ ان کی جگہ ان کے بیٹے نادر گبول کو ٹکٹ دینے کے معاملے پر جیالوں میں سخت ردعمل ابھی سے پایا جاتا ہے۔ تاہم پارٹی قیادت پر نادر گبول کو ٹکٹ دینے کیلئے کافی دبائو ہے۔ کیونکہ ان کے سسرالی رشتہ دار بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حمایت کرسکتے ہیں۔ جس سے نادر گبول کے ٹکٹ ہولڈر ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
لیاری میں این اے 239 کے ساتھ دو صوبائی نشستیں پی ایس 106 اور 107 ہیں۔ ایک نشست پی ایس 107 خالصتاً بلوچ بیلٹ پر مشتمل ہے۔ جبکہ 106 کا اکثریتی علاقہ کچھی برادریوں پر مشتمل ہے۔ پی ایس 107 میں ضلعی صدر خلیل ہوت خود امیدوار بھی ہیں اور این اے میں گبول فیملی کے ٹکٹ کے خواہاں بھی۔ ان کے خیال میں نبیل یا نادر میں سے کسی کو بھی ٹکٹ مل جائے تو وہ صوبائی اسمبلی کے ممبر بن سکتے ہیں۔ یہاں 107 پر کاغذات نامزدگی جمع کرنے والوں کی مجموعی تعداد 36 ہے۔ جن میں سید اسامہ قادری، دوست محمد دانش، پریم جی، وہاب احمد ہاشمی، احمد، ہما بانو، نعیم رحمانی، صالح محمد، حاجی بابو غلام حسین، محمود عیسیٰ، نادر گبول، محمد یوسف، محمد جبران، محمد قاسم (حاجی قاسم)، نثار احمد بلوچ، مولانا نورالحق، خلیل ہوت، محبت خان نیازی، عبداللہ رحیم بلوچ، پیر بخش، محمد، جنید احمد، غلام حسین کرد، تنویر خان جدون، عرفان اللہ خان نیازی، شاہد علی کچھی، محمد ظہور، خالد، محمد امین، محمد سلیم، محمد یاسر، آصف یوسف، سرفراز عبدالوہاب، تاج محمد حنفی، حاجی عبدالرزاق بلوچ اور عبداللہ دشتی شامل ہیں۔ ان میں سے پی پی کے نامور امیدواروں میں خلیل ہوت، یوسف بلوچ ، حاجی قاسم اور عبداللہ رحیم بلوچ ہیں۔
پی ایس 106 میں الیکشن کے حوالے سے بڑی دلچسپ صورتحال سامنے آرہی ہے۔ جہاں ٹکٹ انائونس ہونے سے پہلے ہی پی پی کے امیدوار عثمان ہنگورو کا نام فائنل سمجھا جارہا ہے۔ عثمان ہنگورو 3 ماہ قبل شہید بھٹو گروپ سے پی پی میں شامل ہوئے ہیں۔ انہیں پارٹی میں شمولیت کے وقت ہی قیادت کی جانب سے یقین دہانی کرادی گئی تھی کہ وہ پی ایس 106 سے پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر ہوں گے۔
اس نشست سے پہلے کراچی کے جنرل سیکریٹری جاوید ناگوری کامیاب ہوچکے ہیں۔ تاہم گزشتہ الیکشن میں ٹی ایل پی کے امیدوار نے انہیں شکست دی تھی۔ ٹی ایل امیدوار نے 26 ہزار سے زائد، جبکہ جاوید ناگوری نے 14 ہزار سے زائد ووٹ لئے تھے۔ یہ نشست جاوید ناگوری کے بجائے اب حال ہی میں پارٹی جوائن کرنے والے عثمان ہنگورو کو دی جارہی ہے۔ جنہیں پارٹی کارکن پیرا شوٹر کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں۔ پارٹی کے فیصلے سے جاوید ناگوری اور ان کے ووٹرز پارٹی سے نالاں ہیں۔
پارٹی کارکنوں کا کہنا ہے کہ جاوید ناگوری اگر نااہل ہے تو اسے پارٹی کا جنرل سیکریٹری کیوں بنایا گیا۔ اسی طرح دیگر حلقوں کے حوالے سے بھی کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں جس سے پارٹی میں انتشار پایا جاتا ہے۔ پی ایس 106 میں مجموعی طور پر 32 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ جن میں محمد شکیل، نور محمد، جاوید اختر، پریم جی، محمد اقبال، الماس اعظم، میاں خیل، سجاد علی، تاج الدین صدیقی، راحیل، ناصر محمود، سید عبدالرشید، محمد یعقوب، عبدالغفار سومرو، فضل الرحمن نیازی، عثمان غنی، عنبرین، انور علی محمد، محمد عمران، گل سعید بزنجو، محمد حسین سومرو، شاہد رانا، عبدالواحد ہنگورو، محمد زمین، شازیہ عمر، شاکر الطاف، افشاں، آدم اسحاق سنگھار، محمد جاوید، سلیمان مندرہ، بلاول محمد اسلم اور مولا بخش سومرو شامل ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پی پی قیادت کی جانب سے 3 ماہ قبل ٹکٹ کی یقین دہانی کے بعد عثمان ہنگورو کا ٹکٹ پکا ہے۔ وہاں جماعت اسلامی نے پی ایس 107 سے کامیاب رکن اسمبلی سید عبدالرشید کو اس بار پی ایس 106 سے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہاں اصل مقابلہ پی پی اور جماعت اسلامی کے امیدوار کے درمیان ہوگا۔ جو پہلے بھی پی پی کے امیدوار کو شکست دے کر اسمبلی پہنچے تھے۔ پیپلز پارٹی کے لیاری کے کارکنان مقامی عہدیداروں اور رہنمائوں کے باعث تقسیم در تقسیم ہیں۔ وہاں ٹائون ناظم ناصر کریم بلوچ کے خلاف بھی ایک گروپ ان کی تحریک انصاف سے واپسی پر انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں۔ جس میں ضلعی صدر خلیل ہوت بھی شامل ہیں۔
ضلعی صدر نے ٹائون میں سابق ٹائون ناظم اور ٹائون چیئرمین کے امیدوار ملک فیاض کو پارلیمانی لیڈر مقرر کیا ہے۔ جنہیں ناصر کریم قبول کرنے کو تیار نہیں۔ یہاں ہونے والی گروپ بندی بھی قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں پی پی پی کو جیت سے دور کرسکتی ہے۔ وہیں لیاری میں موجود کچھی برادریاں اپنے مفادات کے برخلاف ٹکٹ کی تقسیم پر پیپلز پارٹی کے خلاف ووٹ کاسٹ کریں گی۔ جس کی بازگشت شازیہ کریم کے آٹھویں سے اکیسویں نمبر پر جانے سے شروع ہوگئی ہے۔
گزشتہ الیکشن میں جاوید ناگوری کی ہار کا بڑا سبب بھی کچھی برادری کی جانب سے پی پی کا بائیکاٹ بتایا جاتا ہے۔ جبکہ پی پی نے سنگھار برادری سے خاتون کو ریزرو سیٹ پر کامیاب کرایا تھا۔ آئندہ الیکشن کیلئے کی جانے والی حلقہ بندی بھی پی پی کے حق میں نظر نہیں آتیں اور اس نئی حلقہ بندی سے جماعت اسلامی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ لیاری میں انتخابی گہما گہمی عروج پر پہنچ چکی ہے۔
سیاسی جماعتوں کے دفاتر آباد اور چائے خانوں پر محفلیں سجنے لگی ہیں۔ علاقے میں پارٹی پرچم کی بہار اور انتخابی نعروں سے دیواریں رنگی جارہی ہیں۔ لیاری سے تینوں نشستیں کھونے والی پیپلز پارٹی کیلئے اپنی سیٹیں واپس لینے کے ظاہری امکانات کسی چیلنج سے کم نہیں۔