محمد قاسم :
افغان طالبان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغانستان سے پاکستان میں کاروائیاں کرنے سمیت دیگر امداد کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ یقین دہانی افغانستان کے وزیراعظم مولوی محمد حسن اخوند نے جے یوآئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں آنے والے وفد سے ملاقات میں کرائی۔
کابل سے ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان نے طالبان قیادت سے کہا کہ مستقبل میں پاکستان ہی طالبان کیلئے کارامد ہوگا۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان اختلاف پیدا کیے جائیں۔ امریکہ افغانستان میں شکست کو نہیں بھولا۔ اس لئے مستقبل میں امریکہ سازش کرے گا۔ اس وقت طالبان حکومت سے پوری امت مسلمہ کو امیدیں وابستہ ہیں۔ طالبان کی جدوجہد کو سامنے رکھ کر فلسطینی مسلمانوں نے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی نئی مثال قائم کی۔
دوسری جانب جے یو آئی کے مرکزی ترجمان اسلم غوری کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کی ملاقاتوں کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔ جس کے مطابق افغانستان کے وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند نے پاکستانی علما کے وفد کا خیرمقدم کیا۔ مولانا فضل الرحمان نے طالبان رہنماؤں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بیرونی قبضے کے خلاف امارت اسلامیہ کو عظیم فتح حاصل ہوئی ہے۔ افغانستان میں اسلامی نظام مزید مستحکم ہوگا۔ جس کی برکت سے اس کے مثبت اثرات پوری اسلامی دنیا تک پہنچیں گے۔
مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ ہمارے دورہ افغانستان کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان موجود غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔ دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات، معیشت، تجارت اور باہمی ترقی میں تعاون کی راہیں تلاش کرنا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے افغان رہنماؤں کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کے حوالے سے کہا کہ جے یو آئی نے افغان مہاجرین کے ساتھ پاکستان کے حکمرانوں کے رویے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ ہم اس قسم کے رویے کو غلط اور دونوں ممالک کے درمیان مسائل کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ ہم یہاں خیر سگالی کا پیغام لائے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس سفر کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
اس موقع پر افغان وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند نے جے یو آئی وفد کو بتایا کہ امید ہے کہ یہ دورہ دونوں پڑوسی ممالک اور عوام کے درمیان بھائی چارے اور مثبت تعلقات کی مضبوطی کا باعث بنے گا۔ افغانستان اور پاکستان میں مختلف شعبوں میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ اس لیے ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان میں اسلامی نظام کی حکمرانی ہے۔ علمائے کرام ہر معاملے کو شریعت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
امارت اسلامیہ افغانستان پاکستان سمیت کسی بھی پڑوسی ملک کو نقصان پہنچانے یا مسائل پیدا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ مسائل کے حل اور غلط فہمیوں کے خاتمے کیلئے علمائے کرام کا کردار اہم ہے۔ پاکستانی حکام کو افغان مہاجرین کے ساتھ ظالمانہ رویہ بند کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس قسم کے رویے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ بلکہ مخالفت اور مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔
ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ دونوں ممالک کو مل کر تمام مسائل کے حل کی راہیں تلاش کرنی چاہئیں۔ اور ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے مزید مسائل پیدا ہوں۔ اس ملاقات میں مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ مولانا عبدالواسع، مولانا صلاح الدین، مولانا کمال الدین، مولانا جمال الدین، مولانا سلیم الدین شامزئی، مولانا امداداللہ، مولانا ادریس، ڈاکٹر عتیق الرحمان اور مفتی ابرار تھے۔ امارت اسلامیہ افغانستان کے چیف جسٹس مولوی عبدالحکیم، سراج الدین حقانی، وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی، وزیر ارشاد حج و اوقاف شیخ الحدیث مولوی نور محمد ثاقب اور بعض دیگر حضرات سمیت کابینہ ارکان نے بھی شرکت کی۔
پاکستانی اسکالرز نے وفد سے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیر خارجہ مولوی امیر متقی نے افغان مہاجرین کے مسائل کے علاوہ افغان تاجروں کے مسائل، پاکستانی حکام کی طرف سے راہداری اور برآمدات میں پیدا ہونے والے مسائل کا بھی ذکر کیا۔ جس سے ہر سال افغان تاجروں کو بھاری مالی نقصان ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی یا اقتصادی لین دین کو سیاسی مسائل کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تمام اختلافی مسائل پر کھل کر بات چیت کی گئی اور کئی مسائل حل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ جس میں مہاجرین کی واپسی اور ٹی ٹی پی کے مسئلہ پر مزید بات چیت شامل ہے۔