عمران خان :
ملک میں ہر ماہ کروڑوں روپے کی ایکسپائر اور غیر رجسٹرڈ ادویات سپلائی کرنے والے بڑے نیٹ ورک کے خلاف ایف آئی اے تحقیقات میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔
کمیشن کی لالچ میں آنے والے ملوث اسپتالوں کی انتظامیہ کے خلاف بھی گھیراتنگ کردیا گیا، جنہوں نے قوانین کو بالائے طارق رکھتے ہوئے غیر رجسٹرڈ اور ایکسپائر اہم ادویات بوگس کمپنی کے سپلائر سے سستے داموں حاصل کرکے مریضوں کی زندگیوں کو خطرات میں ڈالا۔ اس امکان کو بھی تفتیش میں شامل کیا جا رہا ہے کہ جن اسپتالوں کے آپریشن تھیٹرز میں یہ ادویات استعمال ہوئیں، وہاں ہونے والی اموات کی شرح کی چھان بین کی جائے۔ کیوں کہ امکان ہے کہ ایسی ادویات سے ہونے والی اموات کو دورانِ علاج اموات کی عمومی شرح میں شامل کیا جاتا رہا ہو۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول گزشتہ ہفتے ایف آئی اے نے ڈریپ کے ساتھ مل کر کراچی سے پورے پاکستان میں غیر رجسٹرڈ اور ایکسائر ادویات سپلائی کرنے والا بڑا نیٹ ورک کا سراغ لگایا۔ جس میں ملزمان کئی برسوں سے کراچی، اسلام آباد، لاہور اور پشاور سمیت مختلف شہروں کے بڑے اسپتالوں کو آپریشن تھیٹر میں بے ہوشی کے لیے استعمال ہونے والی ادویات سمیت دیگر ادویات اور طبی آلات سپلائی کر رہے تھے۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول مذکورہ گروپ کینیڈا میں مقیم شخص چلاتا رہا جس کے خلاف بیکسٹر فارما انٹرنیشنل سمیت دیگر غیر ملکی کمپنیوں کی کروڑوں روپے کی ادویات اسمگل اور مس ڈکلریشن کے ذریعے پاکستان منتقل کرکے بڑے اسپتالوں کو سپلائی کرنے کے علاوہ ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت بھی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔
جبکہ ادویات کے نمونے جانچ پڑتال کے لئے لیبارٹری بھجوادئے گئے ہیں تاکہ تصدیق کی جاسکے کہ ادویات جعلی ہیں یا اصلی۔ اور اگر ادویات جعلی نکلتی ہیں تو یہ ایک سنگین صورتحال ہوگی جس میں نئی دفعات کو کارروائی میں شامل کرلیا جائے گا۔ جبکہ ان اسپتالوں کا ریکارڈ بھی لیا گیا جہاں یہ ادویات سپلائی کی گئیں۔ ذرائع کے مطابق ابتدائی طور پر ڈیفنس کے بنگلے پر چھاپہ مار کر دو ہزار کے قریب ادویات کے کارٹن ضبط کرنے کے بعد کاشف نقوی نامی شخص اور بائیو ٹیک پاکستان کمپنی کے خلاف ڈرگ ایکٹ کے قوانین کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ جس میں بنگلے سے کاشف نقوی کے منیجر قاضی فرحان جمال کو گرفتار کرکے مزید پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
مذکورہ کارروائی کی تفصیلات کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے ایف آئی اے ذرائع کا کہنا تھا کہ انفارمرکے ذریعے ایف آئی اے کراچی زون کو اطلاع موصول ہوئی کہ کراچی کے علاقے ڈیفنس کے ایک بنگلے سے ادویات اور طبی آلات کی سپلائی کی آڑ میں کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کا نیٹ ورک چلایا جا رہا ہے۔ جس پر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر کراچی زعیم اقبال شیخ کی منظوری کے بعد ٹیم نے ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی کے افسران کے ساتھ مذکورہ بنگلے پر چھاپہ مارا جہاں سے اس وقت آپریشن اور سرجری سے قبل بے ہوش کرنے (اینس تھیسیا) کی 3 اقسام کی ادویات کے 2000 کے قریب کارٹن ملے۔ تلاشی کے دوران کئی زائد المعیاد ادویات بھی ملیں جن کی ری پیکنگ کی جا رہی تھی۔ موقع سے قاضی فرحان جمال نامی منیجر سمیت 2 ملزمان کو ابتدائی طور پر ڈرگز ایکٹ 1976 کے متعلقہ دفعات کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔
ضبط کی گئی غیر قانونی ادویات میں اسوفلوران، سیووفلوران اور ڈیسفلوران شامل ہیں۔ ان ادویات کو سرجری کے دوران بے ہوشی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اِن کے علاوہ ثانوی پیکنگ کا مواد بھی بڑی مقدار میں پایا گیا۔ مشتبہ ادویات اور طبی آلات کا ذخیرہ قبضے میں لینے کے بعد ان کے نمونے لیبارٹری ٹیسٹنگ کے لیے بھیج دئے گئے۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق یہاں سے ملنے والی دستاویزات اور انوائسوں سے معلوم ہوا کہ بائیو ٹیک پاکستان نامی کمپنی کے نام پر بوگس لائسنس کے ذریعے ادویات پورے ملک میں سپلائی کی جا رہی تھیں۔ ابتدائی ایف آئی اے تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ کمپنی نے اپنے دفاتر شارع فیصل، محمود آباد، مہران ٹائون اور صدر میں ظاہر کر رکھے تھے۔ تاہم خفیہ گودام ڈیفنس میں بنا رکھا تھا۔ یہ بھی بھی انکشاف ہوا ہے کہ کرتا دھرتا کاشف نقوی کینیڈا میں موجود ہے اور اس کا ایک بھائی فرخ نقوی پاکستان کا سیٹ اپ دیکھتا ہے جو ٹیکس چوری کرکے ادویات منگواتے رہے اور کمرشل بنیادوں پر ملک بھرمیں بیچ کر منی لانڈرنگ کرکے کروڑوں روپے کے اثاثے بناتے رہے۔ ملزمان ماضی میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے شعبہ سیلز اور اکائونٹس سے بھی منسلک رہے۔ اس معاملے پر مزید تفتیش جا رہی ہے۔
ذرائع کے بقول تحقیقات میں مذکورہ کمپنی اور ڈیلروں کے حوالے سے درآمد کیے جانے والے طبی آلات اور ادویات کا ریکارڈ کسٹمز حکام سے مانگ لیا گیا ہے۔ تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ کتنی مقدار میں قانونی درآمد کی جا رہی تھی اور کتنی اسمگل کی جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اس سامان کو منگوانے کے لئے کون سے افراد اور ڈیلر ادائیگیاں کر رہے تھے اور اس کاروبار سے ہونے والے منافع کی منی لانڈرنگ کے لئے رقوم کس طرح سے بیرون ملک منتقل کی جا رہی تھیں۔
تفتیش میں کمپنی مالک کے خاندان کے تمام افراد کے کوائف حاصل کرکے ان کے ناموں پر موجود بینک اکائونٹس اور اثاثوں کی چھان بین کی جا رہی ہے۔ جبکہ اسپتالوں کو سپلائی کئے جانے والے سامان کے عوض ادائیگیاں جن بینک اکائونٹس اور افراد کو موصول ہوئیں، ان کی چھان بین بھی کی جا رہی ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس پورے نیٹ ورک سے منسلک ملک اور بیرون ملک موجود افراد کے حوالے سے گرفتار ملزمان سے اہم معلومات لے لی گئی ہیں، جن کی روشنی میں انہیں عدالتوں سے مطلوب قرار دلوانے اور ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈلوانے کے لیے بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔ جبکہ ملک میں موجود دیگر ملزمان کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔