اقبال اعوان:
کراچی میں انتخابی سرگرمیوں میں تیزی آنے کے ساتھ ساتھ جرائم بڑھ گئے۔ صنعت کاروں اور تاجروں کے علاوہ بلڈرز، ٹرانسپورٹرز بھتہ خوروں کے نشانے پر آگئے۔ لیاری گینگ وار کے سائوتھ افریقہ میں موجود استاد تاجو گروپ کے علاوہ دیگر 7 گروپس دبئی اور ایران سے چلائے جارہے ہیں۔ جدید آلات اور دیگر وسائل کی کمی کے ساتھ ساتھ کالی بھیڑوں کی وجہ سے پولیس ان کے خلاف کارروائی میں ناکام ہے۔ شہر میں اس حوالے سے خاصا خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔
تاجر رہنما شرجیل گوپلانی کا کہنا ہے کہ نگراں حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بیرون ممالک میں موجود بھتہ خوروں کے سرغنہ کو سفارتی تعلقات کے ذریعے گرفتار کیا جائے۔ جبکہ اب رینجرز بھی ان کے خلاف میدان میں آگئی ہے اور تاجروں سمیت دیگر شعبوں کے لوگوں سے اپیل کی کہ بھتہ خوروں کے رابطوں کے بعد رینجرز یا ان سمیت قابل اعتماد تاجر رہنمائوں کو اطلاع دیں کہ کارروائی ہو سکے۔
واضح رہے کہ کراچی کے تاجروں سے بھتہ خوری کے حوالے سے وارداتیں سامنے آنا تیز ہوگئی تھیں جبکہ گزشتہ ماہ تین تاجر بھتہ نہ دینے پر قتل ہوئے تھے۔ ان میں ٹمبر مارکیٹ میں تاجر شہزاد جعفرانی، گبول ٹائون میں کپڑوں کے تاجر سلیم مون کے بیٹے اسامہ مون کو اور بلال نامی دھاگے کے تاجر کو دو کروڑ روپے بھتہ نہ دینے پر قتل کیا گیا۔ اس دوران صنعت کاروں کو سرکاری ہدایات جاری ہوئیں کہ بھتہ خوروں کی جانب سے ان کو ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے۔
اس لیے بتایا گیا کہ شہر کے صنعت کار سفر کے روٹس، اوقات، گاڑی تبدیل کرتے رہیں۔ بھتے کی کال آنے پر یا پرچی ملنے پر سائٹ ایریا کرائم مانیٹرنگ سیل کو فوری آگاہی دیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں کے باہر خفیہ کیمرے اور سرچ لائٹس لگائیں۔ جبکہ ٹریفک جام اور سگنلز پر ہوشیار رہیں۔ تاجروں کی متعدد شکایتوں کے بعد کراچی چیمبر میں رینجرز مانیٹرنگ سیل دوبارہ فعال کر دیا گیا۔
اس صورت حال کے بعد تاجروں، صنعت کاروں، بلڈرز، ٹرانسپورٹر، پکوان سینٹرز اور دیگر شعبوں کے افراد میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ آج کل شہر میں انتخابی سرگرمیاں تیز ہو چکی ہیں اور دیگر جرائم میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈکیتی مزاحمت پر قتل کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ پولیس کی کارکردگی شہریوں کے سامنے ہے کہ پولیس کی کالی بھیڑیں شارٹ ٹرم اغوا، لوٹ مار، گھروں، دفاتر میں مختلف بہانوں سے لوٹ مار اور جرائم پیشہ کی سرپرستی میں ملوث ہیں۔ اس لیے بھتے کی کال یا پرچی ملنے پر شہری پولیس سے رابطہ نہیں کرتے ہیں کہ ان کی اطلاع بھتہ خور تک نہ پہنچے۔ اس طرح مالی نقصان کے ساتھ جان کا بھی خطرہ لاحق ہے۔
کراچی میں بھتہ خوروں کے دیگر نیٹ ورک کم ہیں، جبکہ لیاری گینگ وار کے گروپس اب بھی کارندوں کے ذریعے کارروائی کررہے ہیں۔ وصی لاکھو گروپ ایران سے آپریٹ ہورہا ہے۔ اس کے ٹمبر مارکیٹ کے بھتہ خوروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے تاجر شہزاد جعفرانی کے قتل کے بعد وصی لاکھو گروپ کا ٹارگٹ کلر اور بھتہ خور محمد کبیر گرفتار ہوا تھا، جس نے بتایا تھا کہ آج کل گینگ وار کے گروپ نئی بھرتیاں کررہے ہیں۔
ہر گروپ 40/50 لڑکے رکھتا ہے اور ان کو 10/15 ہزار ماہانہ دیتے ہیں کہ تاجروں اور دیگر کو پرچی دے کر آئو۔ جبکہ بیرون ممالک ایران، سائوتھ افریقہ اور دبئی سے کالیں کی جاتی ہیں اور یہ لڑکے ریکی کرتے ہیں اور فائرنگ کر کے خوف زدہ کرنے والے الگ لڑکے ہیں۔ سائوتھ افریقہ میں موجود استاد تاجو گروپ زیادہ فعال ہے اور دبئی کے وصی لاکھو گروپ کی سرپرستی بھی کرتا ہے۔ اس طرح دیگر گروپ میں جمیل چھانگا، بہادر پی ایم ٹی، فیصل پٹھان، ایاز زہری، احمد مگسی، ارسلان پٹی بھی شامل ہیں۔
معروف تاجر رہنما شرجیل گوپلانی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بھتہ خوروں کے خلاف انہوں نے باقاعدہ مہم چلائی ہوئی ہے اور تاجروں اور دیگر شعبوں کے لوگوں کو کہتے ہیں کہ بھتہ خور کال کریں یا پرچی بھیجیں تو فوری طور پر رینجرز کو اطلاع دیں یا ان سمیت دیگر تاجر رہنمائوں جن پر اعتماد کرتے ہوں، ان کو بتا دیں اس طرح کارروائی میں آسانی ہو گی۔ نگراں سندھ اور وفاقی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سفارتی تعلقات کے ذریعے بیرون ممالک میں موجود بھتہ خوروں کے سرغنہ کو گرفتار کیا جائے۔ اس حوالے سے انہوں نے رینجرز کے افسران سے بھی ملاقات کی ہے۔