امت رپورٹ
شیخ رشید کا ڈبل گیم ناصرف ان کے گلے پڑگیا ہے، بلکہ راولپنڈی کی نشست پران کی بدترین شکست کے قوی امکانات پیدا ہوگئے ۔
شیخ رشید لگ بھگ پچھلے چالیس برس سے لال حویلی راولپنڈی کی آبائی نشست این اے ایک سو چھپن سے الیکشن لڑتے چلے آرہے ہیں (مختلف ادوار میں اس حلقے کی نمبرنگ تبدیل ہوتی رہی ہے) بہت کم مواقع پر انہیں اس سیٹ پر ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انہیں یہ فتوحات ہمیشہ کسی کی پشت پناہی کے سبب ملتی رہیں۔ کبھی انہیں ضیا الحق کا کاندھا میسر تھا۔ کبھی مشرف کی بیساکھی ملی اور پھر انہوں نے تحریک انصاف کا سہارا لے لیا۔ شیخ رشید جب بھی کسی سہارے یا بیساکھی سے محروم ہوئے شکست ان کا مقدر بنی۔ اب ایک بار پھر انہیں اسی نوعیت کی صورتحال درپیش ہے کہ آٹھ فروری کا الیکشن انہیں کسی بیساکھی کے بغیر لڑنا ہے۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف نے راولپنڈی کے حلقہ این اے چھپن اور ستاون میں شیخ رشید کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے انکار کرتے ہوئے ان کے مقابلے میں اپنے دو امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ حلقہ این اے چھپن سے شیخ رشید کے مدمقابل پی ٹی آئی کے شہر یار ریاض اور این اے ستاون سے ان کے بھتیجے شیخ راشد کے سامنے پی ٹی آئی کی سیمابیہ طاہر ہیں۔ یوں ان دونوں حلقوں میں چچا بھتیجے کی ہار کے قوی امکانات ہیں۔ کیونکہ وہ پچھلے دو الیکشن پی ٹی آئی کی سپورٹ سے ہی جیتتے آئے ہیں۔
گزشتہ جنرل الیکشن میں تو ان کے بھتیجے نے باقاعدہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا۔ یوں پی ٹی آئی کی جانب سے لات پڑنا راولپنڈی کے شیخو کے لئے کسی صدمے سے کم نہیں۔ اس صدمے کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے ’’مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ جو شخص سترہ مرتبہ وزیر رہا اس کو بعض افراد نے ٹکٹ دینے کے قابل نہیں سمجھا۔ ایسے لوگوں کو ٹکٹ ملا جو رات کی تاریکی کی فلائٹ سے لندن اور امریکہ سے آئے تھے‘‘۔
اس شکوہ بھرے بیان سے قبل شیخ رشید نے پی ٹی آئی کی سپورٹ حاصل کرنے کے لئے منت سماجت کے ریکارڈ قائم کردیئے تھے۔ حتیٰ کہ سترہ بار کے وزیر نے تحریک انصاف کے حادثاتی چیئرمین بیرسٹر گوہر کے گھٹنے بھی پکڑ لئے، جنہیں پی ٹی آئی میں آنے سے پہلے سیاسی طور پر کوئی جانتا تک نہیں تھا۔ دوسری جانب شیخ رشید نے آخری دن تک یہ چورن بیچنے کی کوشش کی کہ وہ عمران خان کے سب سے بڑے وفادار ہیں اور ان ہی کی خاطر انہیں ’’چلّہ‘‘ کاٹنا پڑا۔ لیکن شیخ رشید کا یہ چورن نہیں بک سکا۔
پی ٹی آئی نے راولپنڈی کے ان دونوں حلقوں پر اپنے امیدواروں کو ٹکٹ الاٹ کرکے مکو ٹھپ دیا۔ بارہ جنوری کی سرد شام، اداس شیخو نے خاموشی کے ساتھ این اے ستاون سے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لئے ۔ پہلے وہ اس امید پر دونوں حلقوں سے الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے تھے کہ ماضی کی طرح پی ٹی آئی انہیں سپورٹ کرے گی۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا تو اب انہوں نے صرف ایک حلقے این اے چھپن سے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے اور این اے ستاون سے وہ اپنے بھتیجے کو الیکشن لڑائیں گے۔
شیخ رشید کی کوششیں ناکام کیوں ہوئیں؟ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ ’’چلّہ‘‘ کاٹنے کے بعد شیخ رشید نے ایک نجی ٹی وی چینل کو جو انٹرویو دیا تھا۔ اس کی تمام تفصیلات سے جیل میں قید عمران خان کو آگاہ کردیا گیا تھا اور بانی پی ٹی آئی اس پر سخت ناراض تھے۔ اگرچہ شیخ رشید نے اپنے تئیں اس انٹرویو کو متوازن بنانے کی کوشش کی ۔ دوران انٹرویو وہ نو مئی کے واقعات کی بظاہر مذمت کرتے رہے اور بتاتے رہے کہ کس طرح وہ عمران خان کو قائل کرتے تھے کہ اداروں کے خلاف بیان بازی نہ کریں اور دوسری جانب عمران خان سے اپنی دوستی کا دم بھی بھرتے رہے۔
انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی یعنی اسٹیبلشمنٹ کو بھی راضی کرلیا جائے اور عمران خان کو بھی ناراض نہ کیا جائے تاکہ الیکشن میں انہیں پی ٹی آئی کی بیساکھی دستیاب رہے۔ لیکن ان کا یہ ڈبل گیم بری طرح فلاپ ہوگیا۔
ذرائع کے مطابق عمران خان نے چند ہفتے پہلے ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ اب شیخو سے جان چھڑانے کا وقت آگیا ہے۔ شیخ رشید کے انٹرویو کے بعض حصوں پر وہ سخت برہم تھے۔ رہی سہی کسر ان کے ساتھ ملاقات کرنے والے وکلا نے پوری کردی جو خود بھی نہیں چاہتے تھے کہ شیخ رشید کو اس بار راولپنڈی میں کھلا میدان فراہم کیا جائے۔ چنانچہ عمران خان نے شیخ رشید اور ان کے بھتیجے شیخ راشد کو سائیڈ کرکے اپنے امیدواران اتارنے کا گرین سگنل دیدیا۔ یوں اب الیکشن والے روز دونوں سیاسی یتیم چچا، بھتیجا جھولی پھیلاکر صدا لگارہے ہوں گے ’’ووٹ دے دو ، ووٹ دے دو‘‘۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شیخ رشید اور پی ٹی آئی کی اس رسہ کشی کا سارا فائدہ ان دونوں حلقوں میں نون لیگی امیدواروں کو پہنچے گا۔ دونوں ایک دوسرے کے ووٹ کاٹیں گے۔ ان دو حلقوں سے نون لیگ نے دانیال چوہدری اور حنیف عباسی کو میدان میں اتارا ہے۔ موجودہ صورتحال میں ان کی جیت کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔