نمائندہ امت :
پولنگ شیڈول قریب آنے کے باوجود کچھ جماعتوں کے بعض امیدواروں نے انتخابی عمل سے باہر ہونا شروع کردیا ۔ سب سے زیادہ دستبرداریاں گذشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتنے والوں کی سامنے آئی ہیں اور مزید سامنے آنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ جبکہ لاہور میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹوں کی تقسیم میں استحکام پاکستان پارٹی کو ایڈجسٹ کرنے سے آئی پی پی کے اہم رہنمائوں کا الیکشن خطرے میں ہے اور مسلم لیگ کی دو اہم نشستیں ہاتھ سے نکنے کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں۔
الیکشن سے دستبرداری کی پہل پی ٹی آئی کے شفقت محمود نے کی تھی جن کی جگہ پر سلمان اکرم راجہ کولاہور سے حلقہ این اے ایک سو اٹھائیس سے ٹکٹ جاری کیا گیا۔ اسی طرح فرخ حبیب نے بھی پی ٹی آئی اور اس کے بعد استحکام پاکستان پارٹی سے ٹکٹ نہ ملنے پر دستبرداری کا اعلان کیا تھا اور پھر پنجاب اسمبلی کے سابق اسپیکر سردار محمد سبطین خان کو انتخابی میدان خالی کرنا پڑا جن کی نشست پی پی ایک سے اٹھاسی پر پی ٹی آئی نے ممتاز سرا کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔
یہی پوزیشن پی ٹی آئی کے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی سامننے آئی جو الیکشن سے دستبردار ہوگئے۔ تاہم علاقائی سیاست برقرار رکھنے کیلئے ان کے بھائی جعفر بزدار پی پی دو سو چوراسی سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابی عمل میں ہیں۔
دوسری جانب استحکام پاکستان پارٹی کے اہم رہنما بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ انتخابی ایڈجسٹ منٹ کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں، جنہیں ان کے من پسند حلقوں سے جگہ نہیں ملی۔ کچھ ایسی ہی پوزیشن استحکام پاکستان پارٹی کے امیدوار عون چودھری کی ہے جنہیں ان کی خواہش کے برعکس حلقے سے ٹکٹ دیا گیا اور وہ اس کی نئے سرے سے ایڈجسٹمنٹ کیلئے کوشاں ہیں۔
لاہور میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی کی یہ نشستیں جہاں خطرے سے دوچار ہیں، وہیں اس کا نقصان پاکستان مسلم لیگ ن کو دو نشستیں کھونے کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف نظریاتی بھی عین موقع پر سامنے آگئی ہے جس سے پی ٹی آئی کا مبینہ پلان ’ بی ‘ ابتدائی مرحلے میںبھی ناکام ہوگیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف نظریاتی کے چیئرمین اختر اقبال ڈار نے واضح کیا ہے ککہ ان کا یا ان کی جماعت کا پی ٹی آئی کے کسی رہنما سے کوئی رابطہ یا تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ طے پایا ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار پی ٹی آئی نظریاتی کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی نظریاتی بنانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ الیکٹ ا یبلز، پیسے کی سیاست اور غنڈہ گردی کی سیاست ختم کرنا اہم ترین ضرورت تھی۔ چنانچہ میں نے بانی اراکین پرمشتمل گروپ بنایا اور الیکشن میں ٹکٹ جاری کیے جو بلے باز کے نشان پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سیاسی حلقوں میں یہ افواہیں تھیں کہ پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی نظریاتی میں کوئی معاہدہ طے پایا تھا لیکن اس معاہدے کی دستاویزات پر کسی کے دستخط نہیں تھے۔ دوسری جانب ایسی اطلاعات تھیں کہ اختر اقبال ڈار سے مختلف حلقوں نے رابطہ بھی کیا ہے جو تین سے چار گھنٹے تک جاری رہا اور پھر انہوں نے ہنگامی طور پر ہی پریس سے رابطہ کیا اوراپنی پوزیشن واضح کی۔
جب پی ٹی آئی نظریاتی کے چیئرمین سے یہ دریافت کیا گیا کہ انہوںنے کتنی تعداد میں امیدوار کھڑے کیے ہیں؟ تو چار پانچ امیدواروں کے نام بھی نہیں بتاسکے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں کو بلے باز کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑوانا پی ٹی آئی کے کسی ’بی ‘ پلان کا حصہ تھا اور اب اس وضاحت سے یہ پلان چوپٹ ہوگیا ہے۔