میر عابد بھٹو:
گھوٹکی کے با رسوخ مہر اور لوند خاندان ذاتی بغض نکالنے اور اپنا خاندانی دبدبہ قائم رکھنے کے لئے اپنی ہی جماعت پیپلزپارٹی کے امیدوار عبدالباری پتافی کو ہرانے کے لئے سرگرم ہو گئے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق عبدالباری پتافی کی کامیابی سے مہر اور لوند کی گھوٹکی ضلع میں چالیس سالہ اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ گھوٹکی میں پیپلز پارٹی میں دھڑابندی ختم نہ ہوسکی۔ فریال تالپور کی گھوٹکی یاترا بھی اختلافات ختم نہ کراسکی۔ ادھر میاں مٹھو نے عبدالباری پتافی کی حمایت کردی ہے۔
گھوٹکی ضلع میں کل دو قومی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ پیپلز پارٹی گھوٹکی میں مسلسل دھڑابندی کے باعث قومی اسمبلی کے حلقے این اے 198، پی ایس 18 اور پی ایس 19 پر بڑے دنگل کا امکان ہے۔ علی گوہر خان مہر اور خالد لوند بالتریب این اے 198 اور این اے 199 پر بطور امیدوار نامزد کئے گئے ہیں۔ علی گوہر خان مہر اور خالد لونڈ ماضی میں حریف تھے، لیکن اب حلیف بن چکے ہیں۔ ادھر مہر اور لوند برادریوں کی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے عبدالباری پتافی میدان میں اترے ہیں۔ جس سے علی گوہر خان مہر اور خالد لوند خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ خاص طور پر وہ عبدالباری پتافی اور پیپلز پارٹی کی مقبولیت سے خائف ہیں۔ لہٰذا انہوں نے اپنے تمام اختلافات ختم کرکے عبدالباری پتافی کے خلاف محاذ بنا لیا۔
سابق ایم پی اے سردار احمد علی پتافی کے انتقال کے بعد ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کی طرف سے عبدالباری پتافی کو ٹکٹ دیا گیا تھا، جس پر علی گوہر خان مہر نے، جو اس وقت پیپلز پارٹی میں تھے، سخت مخالفت کی اور عبدالباری پتافی کے مدمقابل اپنے اتحادی پیر آف بھرچونڈی عبدالمالک عرف میاں مجن کو کھڑا کیا۔ ضمنی انتخاب میں عبدالباری پتافی نے علی گوہر خان مہر کے حمایت یافتہ امیدوار میاں مجن کو شکست دے تھی۔ عبدالباری پتافی کی کامیابی سے علی گوہر خان مہر اور پیپلز پارٹی کے مابین دوریاں بڑھ گئیں۔ حالیہ عام انتخابات سے قبل علی گوہر خان مہر نے پیپلز پارٹی کو الوداع کہہ کر جی ڈی اے میں شمولیت اختیار کرلی اور عبدالباری پتافی کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ گزشتہ عام انتخابات میں عبدالباری پتافی نے علی گوہر خان مہر کو شکست دے کر سندھ میں بڑا اپ سیٹ کیا تھا۔
عبدالباری پتافی سے شکست کھانے کے بعد خالد لوند نے اپنے پرانے سیاسی حریف علی گوہر خان مہر سے اتحاد کرلیا۔ تین ماہ بعد علی گوہر خان مہر ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کی گود میں بیٹھ گئے۔ آصف زرداری کی خانگڑھ یاترا کے دوران علی گوہر خان مہر نے پیپلز پارٹی میں باضابطہ طور پر واپسی کا اعلان کیا۔ اب علی گوہر خان مہر اور خالد لوند ایک مرتبہ پھر عبدالباری پتافی کو پی ایس 19 کا ٹکٹ ملنے پر احتجاج کیا، لیکن وہ ناکام رہے۔ جس پر علی گوہر خان مہر اور خالد لوند نے پتافی کے سامنے سابق صوبائی وزیر نادر اکمل لغاری کو آزاد حیثیت سے کھڑا کردیا۔
دوسری طرف این اے 198 پر پیپلز پارٹی کے امیدوار خالد لوند کے مدمقابل سابق ایم این اے میاں مٹھو کھڑے ہوگئے ہیں۔ خالد لوند کی طرف سے عبدالباری پتافی کی مخالفت کرنے کے بعد پتافی قبیلے کے سردار عبدالقیوم پتافی اور باری پتافی نے بھی میاں مٹھو کی باضابطہ حمایت کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی قیادت پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پر نوٹس بھی لیتی رہی۔ لیکن علی گوہر خان مہر اور خالد لوند نے تمام احکامات کو نظرانداز کرلیا اور عبدالباری پتافی کے خلاف کمپین جاری رکھی۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ عبدالباری پتافی کی کامیابی کی صورت میں گھوٹکی ضلع میں مہر اور لوند خاندانوں کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔
دوسری طرف فریال تالپور نے میرپور ماتھیلو پہنچ کر عبدالباری پتافی سے ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق فریال تالپور نے عبدالباری پتافی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پارٹی ان کے ساتھ ہے۔ عبدالباری پتافی نے فریال تالپور کا آزاد امیدوار میاں مٹھو سے بھی رابطہ کروایا ہے، جس کے بعد میاں مٹھو کو گرین سگنل مل گیا ہے۔