نواز طاہر:
کسی ایک سیاسی جماعت کو واضح اکثریت نہ ملنے کے باعث، ایک بار پھر حکومت سازی میں جوڑ توڑ اور سمجھوتوں کو مرکزی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ مخلوط حکومت بنانے کیلئے آزاد امیدواروں سے کامیاب رابطوں کے دعوے بھی کیے جارہے ہیں۔ لیکن اسی دوران عدالتوں میں دائر ہونے والی درجنوں درخواستوں کی وجہ سے سیاسی حلقوں کی نظریں ایک بار پھر سے عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر لگ گئی ہیں اور ہر سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ یہ سطور لکھے جانے تک قومی اسمبلی کی دو سو بہتر میں سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کی تعداد ایک سو، مسلم لیگ ن کی تہتر، پاکستان پیپلز پارٹی کی چوّن، ایم کیو ایم پاکستان کی سترہ ، جے یو آئی اور مسلم لیگ ق کی تین تین، استحکامِ پاکستان پارٹی کی دو جبکہ مجلس وحدت المسلمین کی ایک سیٹ کنفرم ہوچکی تھیں۔
ادھر مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اعلان کرچکے ہیں کہ ان کی جماعت سب سے زیادہ نتائج پانے والی پارٹی بن گئی ہے اور وہ مل جل کر حکومت بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ جس کیلئے انہوں نے سب سے پہلے دوسری اکثریتی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے رابطہ کرلیا ہے۔ یہ رابطے میاں شہباز شریف کی قیادت میں تین رکنی کمیٹی کررہی ہے۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے طور پر بھی آزاد امیدواروں سے رابطے کر رہی ہے اور مسلم لیگ ن الگ سے آزاد امیدواروں سے رابطوں میں ہے۔
دونوں جماعتوں کی طرف سے آزاد آمیدواروں سے ہونے والے ربطوں کے بارے میں اپنے اپنے طور پر دعوے کیے جارہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ابھی مکمل نتائج سامنے نہیں آئے اور اس سے پہلے ہونے والی ملاقاتیں ابتدائی طور پر ’فلر‘ بھی ہوسکتی ہیں۔ جبکہ ابھی امکانات اور ممکنات سے بات آگے نہیں بڑھی البتہ رابطوں میں تیزی ضرور ہے۔
پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر حکومت بنانے سے کہیں بہتر اور سیاسی مفاد میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت بنانا ہے۔ اس وقت تک مسلم لیگ ن سمیت تمام جماعتوں سے رابطے ہورہے ہیں۔ تاہم تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں سے ملنا ترجیح ہے۔ مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں نقصان ہوسکتا ہے۔ تاہم جیسے ہی رابطے مکمل ہوںگے، کوئی موقف سامنے لایا جائے گا۔
دوسری جانب مختلف ذرائع سے مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ اس کے ستائیس آزاد اراکین سے رابطے ہوچکے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان پیپلز پارٹی کے ذرائع کا دعوی ٰہے کہ ان کا پندرہ آزاد اراکین سے رابطہ ہوا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ذرائع رابطہ ہونے والے امیدواروں کا ذکر نہیں کررہے، البتہ ان کے اشارے خاص طورپر جھنگ، چنیوٹ اور اس سے ملحقہ اضلاع کی طرف ہیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے ذرائع تصدیق کررہے ہیں کہ ابھی پیپلز پارٹی نے ان اراکین سے رابطہ کیا ہے جو تحریک ِانصاف کی حمایت کے بغیر آزادانہ حیثیت میں منتخب ہوئے ہیں۔
ان ذرائع کے مطابق ابھی پاکستان تحریکِ انصاف کی حمایت سے منتخب ہونے والیوں سے علیک سلیک ہوئی ہے اور انہیں مبارکباد دی گئی ہے۔ ا ن کے ساتھ تعاون کی بات نہیں کی گئی۔ بلکہ ان آزاد اراکین کی قیادت کے رویہ اور رُخ کا جائزہ لیا جائے گا۔
دریں اثنا آزاد اراکین کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ اپنی قیادت کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ ایک آزاد رکن کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کے آزاد اراکین متحد و یکجا ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق ابھی ہماری اور نشستیں بحال ہوںگی، ہماری درخواستیں مسترد کرنا آسان نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ عدالت ِعالیہ، قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ایک سے اٹھائیس سے پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار سلمان اکرم راجہ کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو اس حلقے کا نتیجہ جاری کرنے سے روک چکی ہے اور مزید درجنوں درخواستیں مختلف مراحل میں جن پر جلد سماعت کا امکان ہے۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق عدالتی فیصلے کی روشنی میں اگلا قدم اٹھایا جائے گا اور اس دوران الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ ریٹرننگ افسروں کیخلاف احتجاج بھی جاری رہے گا۔