محمد قاسم:
خیبرپختون میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی بڑے پیمانے پر کامیابی کے باوجود تحریکِ انصاف کو کسی قسم کا سیاسی ریلیف ملتا نظر نہیں آتا۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی خیبرپختون کے کئی اہم رہنما وزارت اعلیٰ کی دوڑ سے پہلے ہی باہر ہوچکے تھے کہ انہیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کیا گیا۔ جبکہ صوبے اور مرکز میں مختلف حکومتوں کے قیام کے بعد صوبہ خیبرپختونخواہ کے مالی مسائل مزید گمبھیر ہو سکتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے موجود مرکزی عہدیداروں اور خاص کر پارٹی کے جنرل سیکریٹری عمر ایوب نے اپنے کزنز ارشد ایوب اور اکبر ایوب کو وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شامل رہنے کے لیے پی ٹی آئی کے دو سابق سینئر وزرا اور عمران خان کے قریبی ساتھی شہرام ترکئی اور عاطف خان کو قومی اسمبلی کے ٹکٹ دیے۔
ذرائع کے مطابق جب عاطف خان نے ٹکٹ دینے کی عمران کی ہدایات کو شیئر کرنے کی درخواست کی تو انہیں بتایا گیا کہ یہ ایک راز ہے اور اب یہ راز سامنے آیا ہے کہ عمران خان کو اس حوالے سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ جبکہ صوبائی صدر علی امین گنڈاپور جو روپوش ہیں، ان کو رام کرنے کے لیے انہیں صوبائی اسمبلی کے دو ٹکٹس دیے گئے۔
ٹکٹ دینے والوں کا خیال تھا کہ انہیں جیتنے نہیں دیا جائے گا لیکن وہ دونوں حلقوں سے جیت گئے۔ ان کے جیتنے کے بعد ان کا نام وزارت اعلیٰ کے لیے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آیا ہے اور ہفتے کی شام کو انہیں وزارت اعلیٰ کے لیے باضابطہ طور پر نامزد کر دیا گیا ہے۔ تاہم مرکز میں حکومت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں صوبے میں مالی مشکلات کا سامنا ہو گا۔
ذرائع کے مطابق نواز شریف کی جانب سے 2013ء میں پرویز خٹک حکومت کے خلاف عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت نہ دینے پر آج بھی تنقید کا سامنا ہے کہ پرویز خٹک نے پی ٹی آئی کو سرکاری وسائل استعمال کرنے کی اجازت دی۔ اس لیے صوبائی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔ دوسری جانب علی امین گنڈاپور پر قائم مقدمات ان کی راہ میں رکاوٹ بنے تو ارشد ایوب اور اکبر ایوب سمیت مشتاق غنی وغیرہ کے نام وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کیے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق ایوب خان کے خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے مذکورہ ممبران کے اداروں کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عاطف خان اور شہرام کو قومی اسمبلی کے ٹکٹس دے کر اس میدان سے آئوٹ کر دیا گیا۔ جبکہ پشاور سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی سابق اہم وزرا اور اہم رہنمائوں تیمور سلیم جھگڑا اور کامران بنگش ہار چکے ہیں۔
پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کے مطابق اس صوبے میں پنجاب کی طرح ایک کمزور حکومت لانے اور پی ٹی آئی کے موجودہ مرکزی عہدیداروں کی جانب سے اپنے لوگوں کو نوازنے کا منصوبہ ہے جس کی وجہ سے شوکت یوسف زئی، تیمور سلیم اور کامران بنگش کو دوڑ سے باہر کر دیا گیا۔ اور زیادہ تر نئے لوگوں، جن میں کئی وکلا شامل ہیں کو وزارتیں دینے کا پلان ہے۔
شکست کے حوالے سے تیمور سلیم نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ انہوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے اور الیکشن کمیشن سے بھی رجوع کیا جارہا ہے۔ جبکہ کامران بنگش کے مطابق آزاد امیدوار سے ہارنے کا دکھ ہے۔ اگر جے یو آئی یا پی پی پی کے امیدوار ہوتے تو پھر بھی کچھ بات تھی۔
دوسری جانب ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور کے تمام مقدمات میں ضمانت کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ذرائع نے بتایا کہ علی امین گنڈاپور کی نامزدگی پر کارکنان نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے کہ علی امین گنڈاپور 9 مئی کے واقعات میں مطلوب ہیں۔