نمائندہ امت :
کراچی میں ایک بار پھر بائیک ریس کا خونیں کھیل زور پکڑنے لگا ہے۔ شہر کی بڑی شاہراہوں کے 61 مقامات پر ہفتے کی رات سے اتوار کی صبح تک چار بڑے بائیکر گینگز کا راج ہوتا ہے۔ اس دوران لاکھوں روپے کا جوا بھی کھیلا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ موت کے اس کھیل کو نہ صرف مختلف تھانوں کی پولیس، بلکہ بعض سیاسی شخصیات کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریسوں میں تسلسل سے پیش آنے والی اموات کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔ اس کی واضح مثال گزشتہ ماہ دو نوجوان ریسرز اٹھارہ سالہ شایان اور بیس سالہ حسن کی ہلاکت بھی ہے۔ اس واقعے کا مقدمہ تک درج نہیں کیا گیا اور معاملے کو خاموشی سے دبا دیا گیا۔
موٹر سائیکل ریس کا خونیں کھیل چند برس قبل سندھ رینجرز کی مداخلت سے ختم ہوچکا تھا۔ لیکن اب یہ پولیس کے کرپٹ افسران و اہلکاروں کی سرپرستی میں پھر زور و شور سے جاری ہے۔ اس وقت سی ویو روڈ، شارع فیصل، حب ریور روڈ، ناردرن بائی پاس، اسٹیل ٹائون سے گھارو تک اور سپر ہائی وے پر موٹر سائیکل ریس کا سلسلہ جاری ہے، جسے علاقے کے تھانوں کی مکمل سر پرستی حاصل ہے۔
دوسری جانب سنگین صورت حال روکنے میں حکومت سندھ ہمیشہ غیر سنجیدہ دکھائی دیتی رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کی شاہراہیں چار بڑے بائیک ریسر گینگز کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہیں، جن کے تعلقات پولیس کے کچھ اعلی افسران اور بعض سیاسی شخصیات تک سے ہیں۔ رواں برس 27 جنوری کو بھی شاہ فیصل کالونی اور کورنگی کے دو لڑکے 18سالہ شایان اور 20 سالہ حسن موٹر سائیکل ریس لگاتے ہوئے آپس میں ٹکرانے کے باعث ہلاک ہو گئے تھے۔ مگر پولیس کی جانب سے ریس لگوانے والوں کے خلاف مقدمہ تک درج نہیں کیا گیا اور اسے ایک حادثہ قرار دے کر خاموشی اختیار کر لی گئی۔ کیونکہ ان ریسوں سے علاقہ پولیس کو اچھی خاصی رشوت ملتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں سے بڑا بائیک ریسر گینگ، بالی ایکس نامی نوجوان کا ہے۔ بالی ایکس گینگ شارع فیصل اور سپر ہائی وے پر بائیک ریس کا انعقاد کرتا ہے۔ دوسرا بڑا گروپ ثاقب سنکی کا بتایا جاتا ہے جو مختلف جرائم کی وارداتوں میں بھی ملوث ہے۔ تیسرا بڑا گروپ بابو 70 کا ہے۔ اس گینگ کو شروع کرنے والا نوجوان بابو 70 ایک ریس کے دوران حادثے کا شکار ہوکر اپنی زندگی کی بازی بھی ہار چکا ہے۔ مگر اس کا گینگ اب بھی سلیم نامی ریسر آپریٹ کر رہا ہے۔
چوتھا بڑا گینگ ناٹا CG کا ہے جو سی ویو اور حب ریور روڈ پر ریس کا اہتمام کرتا ہے۔ ذرائع کے بقول، ان چاروں گینگز کی جانب سے منعقد خونیں ریسوں میں ہر ہفتے مجموعی طور پر 40 سے 50 لاکھ روپے کا جوا کھیلا جاتا ہے۔ اپنے پسندیدہ ریسر پر شرطیں لگانے والوں میں شہر کے بعض تاجر بھی شامل ہیں۔
چاروں گینگ، بائیک ریس کے معاملات سوشل میڈیا کی سائٹس پر طے کرتے ہیں، جہاں ایک گینگ دوسرے گینگ کو چیلنج کرتا ہے۔ اگر دوسرا گینگ اس کا چیلنج قبول کرتا ہے تو پھر ریس کس مقام پر ہوگی؟ کس وقت ہوگی اور اس پر کتنے مالیت کا جوا کھیلا جائے گا؟ یہ سب طے کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کون سا رائیڈر ریس میں حصہ لے گا، اس کے بارے میں بھی مکمل تفصیلات گینگز ایک دوسرے کو فراہم کرتے ہیں۔ بعد ازاں متعلقہ تھانے کی پولیس سے رشوت کے معاملات طے کیے جاتے ہیں۔
مقررہ وقت اور مقام پر سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں، مگر پولیس غائب رہتی ہے۔ جیتنے والے رائیڈر کو 10سے15ہزار روپے انعامی رقم ملتی ہے۔ جب کہ فاتح گینگ کا لیڈر لاکھوں روپے سمیٹتا ہے۔ اگر ریس کے دوران کوئی حادثہ پیش آجائے تو سب لوگ موقع سے فرار ہو جاتے ہیں اور شدید زخمی بائیک رائیڈر کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ریسر گینگز ذرائع سے حاصل معلومات کے مطابق کراچی میں درجنوں موٹر سائیکل مکینک بھی اس خونیں کھیل میں معاون ہیں۔ یہ چند ہزار روپے کے عوض 70 سی سی موٹر سائیکل میں آلٹریشن کرکے اسے ریسنگ بائیک بنا دیتے ہیں۔ ایسے مکینک زیادہ تر نارتھ کراچی، اورنگی ٹائون، کورنگی اور لائنز ایریا میں آلٹریشن کا دھندا چلا رہے ہیں۔ جب کہ علاقہ پولیس اپنی جیب گرم کرکے اس جانب سے بھی آنکھیں بند رکھتی ہے۔