نواز طاہر:
پیپلز پارٹی نے نواز لیگ کو حکومت سازی کا مینڈیٹ دے دیا ہے۔ یوں مرکزی حکومت بنانے کا پی ٹی آئی کا خواب بکھر چکا ہے۔ نئے اتفاقِ رائے سے نواز لیگ وزارتِ عظمیٰ اور پیپلز پارٹی ملک کی صدارت سنبھالے گی۔ جبکہ چیئرمین سینیٹ، اسپیکر اور گورنروں کے امور دو ایک روز میں حتمی شکل اختیار کرلیں گے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے وفاقی کابینہ میں شامل نہ ہونے کا اعلان بھی کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں میں میثاقِ جمہوریت کے مطابق آگے بڑھنے کا فیصلہ پہلے ہی ہوگیا تھا۔ جس کی پیپلز پارٹی نے اپنی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) سے منظوری لینے کیلئے نون لیگ سے وقت لیا تھا۔ سی ای سی کے اجلاس کے بعد پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے فیصلے کا اعلان کر دیا۔ جس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ پی پی نے نون لگ کے ساتھ تعاون کا فیصلہ شراکتِ اقتدار کیلئے نہیں، بلکہ ملک میں سیاسی استحکام کے پیشِ نظر کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ذرائع کے مطابق پی پی قائدین نے اس معاملے پر مفصل بحث کی اور اصولی طور پر نون لیگ کے ساتھ مل کر حکومت بنانے یا حکومت سازی میں اس سے تعاون نہ کرنے کی رائے دی۔ اسی دوران نون لیگ کے اجلاس میں بھی پیپلز پارٹی کے تعاون کے بغیر حکومت سازی میں مشکلات پر غور کیا گیا اور یہ بھی جائزہ لیا گیا کہ اس طرح سیاسی بحران و عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔ اس لئے ضروری ہے کہ جس کی بھی حکومت بنے۔ اس جماعت کے ساتھ تعاون کیا جائے۔
پی پی اجلاس میں طے کیا گیا کہ سیاسی روادای اور دوسری جماعت کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے ملک کو سیاسی عدم استحکام سے بچانے کیلئے حکومت سازی کیلئے تعاون کیا جائے اور اس فارمولے پر خیبر پختون کے سوا باقی صوبائی حکومتوں کی تشکیل کیلئے بھی عملدرآمد کیا جائے۔ اس سے جہاں پیپلز پارٹی صوبہ سندھ میں حکومت بنا سکتی ہے۔ وہیں صوبہ بلوچستان میں بھی حکومت بناسکتی ہے اور اس میں ان جماعتوں کو ان کے حجم کے مطابق وسعت قلبی سے حصہ دیا جائے جو مرکز میں حکومت سازی کیلئے تعاون کریں گی۔
اس اجلاس میں پارٹی لیڈر آصف زرداری کے سابق تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے دوبارہ صدر بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ دوسری جانب نون لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے جمہوری روایات کی ضابطے کی کارروائی کی ہے۔ جبکہ بنیادی امور پہلے ہی طے پا گئے تھے۔ مشکلات اس صورت میں ہوسکتی تھیں۔ جب پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار کوئی مسئلہ بنتے یا پی ٹی آئی سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت سازی کی کوشش کرتی۔ بلکہ وہ اس کے برعکس سیاسی عدم استحکام کی جانب بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ موجودہ حالات میں سیاسی عمل کو جاری رکھنے اور سیاسی عدم استحکام سے بچنے کیلئے سیاسی تعاون ہی واحد راستہ تھا اور اس راستے پر چلنے کیلئے دونوں بڑی جماعتوں نے جہاں ایک دوسرے کے ساتھ مثبت پہل کی۔ وہیں پی ٹی آئی کو حکومت سازی کا موقع بھی فراہم کیا ہے اور اس کا اظہار بھی کیا ہے کہ اگر وہ آئین و قانون کے تحت اپنے نمبر پورے کرکے حکومت بناسکتی ہے تو بنا لے۔
ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی کے ساتھ کوئی باقاعدہ ڈیل نہیں ہوئی بلکہ یہ امور طے پانا باقی ہیں۔ تاہم اگر آصف علی زرداری صدارتی امیدوار بنتے ہیں (خود یا نامزد کردہ امیدوار) تو جس طرح پیپلز پارٹی وزارتِ عظمیٰ کیلئے نون لیگ کے امیدوار کو ووٹ دے گی۔ ویسے ہی نون لیگ بھی پیپلزپارٹی کو ووٹ دے گی۔ دوسری جانب پی ٹی آئی نے اپنے آزاد امیدواروں کے ساتھ مرکز میں حکومت بنانے کے ساتھ ساتھ پنجاب اور خیبرپختون میں بھی حکومت سازی کی کوشش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبر پختون کے سوا وہ کسی جگہ اس پوزیشن میں نہیں کہ حکومت سازی کرسکے۔ بلکہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی میں انتشار کی کیفیت دکھائی دے رہی ہے۔