قومی اسمبلی کا اجلاس صبح 10 بجے پارلیمںٹ ہاؤس میں ہوگا، فائل فوٹو
قومی اسمبلی کا اجلاس صبح 10 بجے پارلیمںٹ ہاؤس میں ہوگا، فائل فوٹو

اہم وزارتیں پرانے چہروں کو ملنے کا امکان

نواز طاہر:
اگلے ماہ بننے والی وفاقی کابینہ میں سابق اتحادی کابینہ کی واضح جھلک کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ جس میں تین اہم وزارتیں خارجہ، خزانہ اور اطلاعات کا قلمدان پرانے چہروں کو ملنے کے اشارے ملے ہیں۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ مسلم لیگ ’’ق‘‘ پیپلز پارٹی اور یم کیو ایم نے سیاسی بحران سے بچنے کیلئے اختلاف رائے کے باوجود حکومت سازی میں تعاون کا اعلان کیا ہے اور ملک کو نئے الیکشن کی طرف لے جانے یا ستر کی دہائی جیسے پولورائزیشن کی صورتحال سے بچا لیا ہے۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے سینئر سیاسی رہنما سید منظور علی گیلانی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ جو حالات بن رہے تھے۔ وہ ’ری پول‘ کی جانب بڑھنے کا امکان پیدا کر رہے تھے۔ لیکن سیاسی جماعتوں نے بروقت حکومت سازی کیلئے اقدام اٹھاکر اس کا راستہ روک دیا ہے اور ایسی صورتحال نہیں بن رہی جیسی ستر کی دہائی میں ری پول کے نعروں سے بنی تھی۔ لیکن اسی دوران پی ٹی آئی کی طرف سے اس اتحاد پر غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ جو ناکام ہوگئی۔

یہ کوشش پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت کی طرف سے کی گئی۔ جنہوں نے حقائق کے برعکس ’انکشاف‘ کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے پی ٹی آئی کی قیادت سے اپنی حکومت بنانے کیلئے رابطہ کیا ہے اور اس پر وہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرکے پیش رفت جانیں گے۔ لیکن اس سے پر خود پی ٹی آئی کے حلقوں اور پیپلزپارٹی نے ہی تردید کردی۔ شیر افضل مروت کے اس بیان پر پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما نے رابطہ کرنے پر ’امت‘ کو بتایا کہ ایسی کوئی بات پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے علم میں نہیں۔ پھر یہ کہ اگر کسی جماعت کی قیادت نے رابطہ کرنا ہی ہوتا تو وہ کسی ’ایزی پرسن‘ کے ذریعے کرتی۔ لہٰذا اس بات پر مزید تبصرہ ہی فضول ہے۔

اس رہنما کے مطابق یہ محض اتفاق ہے کہ ان کی پی ٹی آئی کے اعلیٰ حلقوں سے بات ہوئی تو وہ بانی پی ٹی آئی کے اس موقف کا ہی ذکر کررہے تھے کہ جن جماعتوں کیخلاف ان کی سیاسی جنگ ہے۔ ان سے کوئی رابطہ نہیں کرنا۔ ایسے میں کسی بھی شخص کی بات کیا حیثیت رکھتی ہے؟ دوسری جانب پیپلزپارٹی کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل فیصل کریم کنڈی نے بھی باضابطہ طور پر شیر افضل مروت کے بیان اور کسی رابطے کی تردید کردی اور کہا کہ پی ٹی آئی سے رابطہ کرنا ہوتا تو کسی سنجیدہ شخص سے کرتے۔ پی ٹی آئی والوں کو تو خود بھی اپنی سیٹوں کا پتہ نہیں۔

پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا حلقوں کے ذرائع کے مطابق شیر افضل مروت نے ایک میڈیا ہائیپ اور سوشل میڈیا پر جگہ بنانے کیلئے نئی بحث چھیڑنے کی کوشش کی تھی۔ جس کا ایک مقصد حکومت سازی کیلئے اتفاقِ رائے میں نفاق کی کوشش پیدا کرنا تھا۔ اس میں سوشل میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کرنا تھا۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ خود پی ٹی آئی کے کسی رہنما نے مروت کی بات کو آگے نہیں بڑھایا۔ بلکہ الٹا پیپلز پارٹی کے خلاف سخت گیر رویہ اپنائے رکھا۔ جس سے ان کی کوشش ناکام ہوگئی۔

دریں اثنا مسلم لیگ ’’ن‘‘ کا آزاد اراکین کے ساتھ رابطہ بڑھ رہا ہے اور پارٹی پوزیشن کے اسکور میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب حکومت سازی کیلئے تعاون کرنے والی تمام قوتوں میں اب وزارتی فارمولوں پر بھی گفتگو آگے بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔ بعض باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ اگلے ماہ نون لیگ کی بننے والی سیمی قومی حکومت کی کابینہ میں سابق پی ڈی ایم اتحادی حکومت کی کابینہ کی جھلک نمایاں ہوگی اور کچھ پرانے چہرے پہلی والی پوزیشن پر ہی دکھائی دے سکتے ہیں۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ریاستی مشینری نے نگران حکومت سے توجہ ہٹا کر نون لیگ کی قیادت کی رخ موڑ لیا ہے اور حاضریاں شروع کردی گئی ہیں۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی کے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے اراکین کا رخ جاتی امرا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کیخلاف مقدمات بھی تیزی سے آگے بڑھنا شروع ہوگئے ہیں۔