امت رپورٹ:
عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کو تحریک انصاف کی چیئرپرسن بنانے پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے عہدے سے دستبردار ہوتے ہوئے بیرسٹر گوہر علی خان کو پی ٹی آئی کا نگراں چیئرمین نامزد کیا تھا۔ بعدازاں گزشتہ برس دسمبر میں کرائے گئے انٹرا پارٹی الیکشن میں بیرسٹر گوہر کو پارٹی کا بلامقابلہ چیئرمین منتخب کر لیا گیا تھا۔ تاہم الیکشن کمیشن پاکستان نے دوسری بار انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔ پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد تمام پارٹی عہدے بھی ختم ہو گئے تھے۔ یوں اب پی ٹی آئی اپنے سربراہ اور پارٹی عہدیداروں سے محروم ایک پارٹی ہے۔
اگرچہ کاغذوں میں تحریک انصاف ایک ’’ہیڈلیس‘‘ پارٹی ہے۔ تاہم اس کے تمام فیصلے اور معاملات اب بھی جیل میں مقید عمران خان سے ہدایت لے کر اس کی کور کمیٹی چلا رہی ہے۔ جبکہ بیرسٹر گوہر غیراعلانیہ پارٹی سربراہ ہیں۔
اسلام آباد میں موجود پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ عمران خان نے اگرچہ اپنی جگہ خود ہی بیرسٹر گوہر کو پارٹی چیئرمین نامزد کیا تھا۔ تاہم پچھلے کچھ عرصے سے اس اعتماد میں کمی آئی ہے۔ ذرائع کے بقول ہو سکتا ہے کہ ان سے ملاقات کرنے والوں نے بانی تحریک انصاف کے کان بھرے ہوں یا پھر انہوں نے خود ہی محسوس کیا ہو کہ بیرسٹر گوہر پر زیادہ اعتماد نہیں کیا جانا چاہیے اور آنکھیں بند کر کے پوری پارٹی ان کے حوالے کرنا ایک غلط فیصلہ تھا۔
ذرائع کے مطابق وجہ کچھ بھی ہو۔ لیکن اب عمران خان کا بیرسٹر گوہر پر پہلے جیسا بھروسہ نہیں رہا اور ان کو شک پڑ گیا ہے کہ وہ ’’کسی اور کے بندے‘‘ ہیں۔ تاہم اس وقت پارٹی جس صورت حال سے دوچار ہے۔ عمران خان کے خیال میں ایسے میں فوری طور پر کوئی بڑا فیصلہ کرنا مناسب نہیں۔ چنانچہ پارٹی کی سربراہی غیر محسوس طریقے سے بیرسٹر گوہر سے لینے کی حکمت عملی پر غور کیا جارہا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس حکمت عملی کے تحت بیرسٹر گوہر کو پارلیمانی لیڈر بنایا جا سکتا ہے۔ یوں پارٹی کے پارلیمانی امور وہ سنبھالیں گے۔ جبکہ اوورآل پارٹی کی سربراہ علیمہ خان کے سپرد کر دی جائے گی۔ ذرائع کے بقول اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے اور ابھی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
مشاورت کے بعد کسی حتمی نتیجے پر پہنچا جائے گا۔ جس کی منظوری عمران خان ہی دیں گے اور اگر علیمہ خان کو پارٹی کی نگراں چیئرمین بنانے کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے تو پھر بیان عمران خان کی جانب سے جاری ہو گا۔ تاکہ اس کو سب تسلیم کر لیں۔ ذرائع کے مطابق اس فیصلے میں ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ عمران خان نے ہمیشہ موروثی سیاست کے خلاف بات کی ہے۔ اگر علیمہ خان کو پارٹی چیئرپرسن بنا دیا جاتا ہے تو اس سے خود بانی پی ٹی آئی کا موقف کمزور پڑ جائے گا۔ لیکن دوسری جانب موجودہ حالات میں اس کے سوا کوئی چارہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔
عمران خان کے مستقبل قریب میں جیل سے نکلنے کے امکانات معدوم ہیں اور وہ سیاست کے لیے نااہل بھی ہیں۔ ایسے میں پارٹی امور کو سنبھالنے کے لیے عمران خان کو کسی انتہائی مخلص اور وفادار فرد کی ضرورت ہے۔ اس معیار پر فی الوقت عمران خان کی بہنیں پورا اترتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق پارٹی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ موجودہ حالات میں عمران خان سے اگر کوئی سو فیصد مخلص ہے تو وہ ان کے دو بیٹے اور بہنیں ہیں۔ باقی سب ’’کیک‘‘ میں اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں۔
ذرائع کے بقول اس معاملے میں عمران خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی رکاوٹ سمجھا جارہا ہے۔ جن کے اپنی نندوں کے ساتھ تعلقات مثالی نہیں ہیں۔ ان کے مابین اختلافات کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ اگرچہ وہ اس کی تردید کرتی ہیں۔ اس وقت چونکہ بشریٰ بی بی خود دو کیسوں میں سزا یافتہ ہیں اور قید کاٹ رہی ہیں۔ جبکہ ایک سو نوے ملین پائونڈ کیس میں بھی انہیں سزا متوقع ہے۔ لہٰذا اس وقت عمران خان کے پاس انتہائی قابل بھروسہ آپشن اپنی بہنوں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔
عمران خان کے ساتھ طویل وقت گزارنے والے ایک سابق پارٹی عہدیدار کے بقول جس طرح اپنے شوہر کی وفات کے بعد ارب پتی خاندان پر لیڈی اینابیل گولڈ اسمتھ کا اثرورسوخ ہے۔ اسی طرح عمران خان پر شروع سے اپنی بہنوں اور خاص طور پر علیمہ خان کا خاصا اثرورسوخ رہا ہے اور وہ اپنے بھائی (عمران خان) سے بہت سی باتیں منوا لیتی ہیں۔ تاہم بشریٰ بی بی کے ساتھ عمران خان کی تیسری شادی کے بعد بہنوں کا یہ اثرورسوخ تقسیم ہوا ہے۔ جبکہ یہ بات بھی عام ہے کہ عمران خان زمان پارک والی رہائش گاہ بشریٰ بی بی کے نام کر چکے ہیں۔ یہ عوامل بھی بشریٰ بی بی اور عمران خان کی بہنوں کے مابین اختلافات کا باعث بنے ہیں۔
اس عہدے دار کے مطابق اس وقت چونکہ بشریٰ بی بی قید کاٹ رہی ہیں اور ان کی بنی گالہ رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیا گیا ہے۔ ایسے میں عمران خان پر علیمہ خان اور ان کی بہنوں کا اثرورسوخ دوبارہ قائم ہوا ہے اور ان کے بہت سے سیاسی فیصلوں پر بھی وہ اثرانداز ہورہی ہیں۔
یہاں یہ بتاتے چلیں کہ لیڈی اینابیل گولڈ اسمتھ عمران خان کی سابقہ ساس ہیں۔ انیس سو ستانوے میں اپنے دوسرے ارب پتی شوہر سر جیمز گولڈ اسمتھ کے انتقال کے بعد خاندان کے سارے معاملات وہی دیکھتی ہیں۔