عمران خان :
گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران جولائی سے لے کر جنوری تک افغان ٹرانزٹ سے آنے والے سامان کی مقدار میں 30 فیصد تک کمی آئی ہے۔ جبکہ ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس کی جانب سے کراچی بھر میں اسمگلروں کے ٹھکانوں پر مارے گئے چھاپوں میں اس دوران 7 کروڑ کے لگ بھگ سامان ضبط کرکے مقدمات درج کیے گئے۔ جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 4 گنا زائد ہے۔ اس کمی کو کسٹمز حکام نے بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس روٹ سے سامان منگوا کر مقامی مارکیٹوں میں ڈمپ کرنے والے اسمگلروں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔
ڈائریکٹر کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کی سربراہی میں انسداد اسمگلنگ آرگنائزیشن کی ٹیموں نے گزشتہ برس شروع کیے گئے آپریشن میں کامیابیاں حاصل کرنا شروع کردی ہیں اور اس کے نمایاں اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق جولائی 2023ء سے لے کر جنوری 2024ء تک رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ کے دوران کراچی کے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر 6 ارب 958 کروڑ کا سامان ضبط کیا گیا۔
گزشتہ مالی سال کے انہی 7 ماہ میں ضبط کیے گئے سامان کی مالیت 1 ارب 50 کروڑ کے قریب تھی۔ یعنی اسمگلروں کیخلاف کارروائیوں میں ضبط شدہ سامان کی مالیت میں 4 گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران اربوں روپے مالیت کے آٹو پارٹس، کپڑا، کاسمیٹکس، کھانے پینے کی اشیا، الیکٹرانک آئٹمز، بھارتی گٹکا، مضر صحت چھالیہ، سگریٹ، ادویات، ڈیزل، پٹرول اور دیگر سامان کے ساتھ اسمگلنگ میں استعمال ہونے والی گاڑیاں ضبط کی گئیں۔
اس آپریشن کیلئے گزشتہ برس ایک حکمت عملی کے تحت کراچی کے ان مخصوص علاقوں اور مارکیٹوں کو منتخب کیا گیا۔ جو کئی دہائیوں سے اسمگلروں کے گڑھ اور روٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں یوسف گوٹھ ٹرمینل بلدیہ ٹائون، ماڑی پور روڈ، جوڑیا بازار، بولٹن مارکیٹ، اولڈ سٹی ایریا کی مارکیٹیں و گودام، طارق روڈ اور سہراب گوٹھ جیسے علاقے شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پوش علاقوں ڈیفنس اور پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کے گوداموں میں بھی کارروائیاں کی گئیں۔
ذرائع کے مطابق اس آپریشن میں یہ ممکن بنایا گیا کہ مسلسل مانیٹرنگ کرکے اسمگلرز کیخلاف کارروائیاں جاری رکھی جائیں۔ تاکہ اسمگلروں کو زیادہ سے زیادہ مالی نقصان پہنچا کر سامان ڈمپ کرنے اور مقامی تاجروں تک پہنچانے سے باز رکھا جا سکے۔ اس آپریشن میں بہت حد تک کامیابی حاصل کی گئی ہے۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ روٹ جو گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستانی بندرگاہوں سے سامان افغانستان درآمد کرنے کے نام پر اربوں روپے کی اسمگلنگ کا ذریعہ بنا دیا گیا تھا۔ اس کے ذریعے اسمگلروں نے سامان منگوانا اب قدرے کم کردیا ہے۔ کیونکہ وہ یہ خطرہ مول لینے سے گھبرا رہے ہیں کہ اگر انہوں نے سامان منگوا بھی لیا تو کسٹمز آپریشن میں ضبط کرلیا جائے گا اور ان کی کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری ڈوب جائے گی۔
گزشتہ عرصہ میں اسی اربوں روپے کے نقصان کی وجہ سے افغان ٹرانزٹ سے آنے والے سامان کی مقدار میں 30 فیصد تک کمی آئی ہے۔ مالی سال 2022-2023ء میں جولائی 2022ء تا جنوری 2023ء تک 13 لاکھ 50 ہزار ٹن سے زائد سامان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پر پاکستانی بندرگاہوں پر لایا گیا۔ جبکہ جولائی 2023ء سے جنوری 2024ء تک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت 8 لاکھ 89 ہزار ٹن کے قریب سامان درآمد کیا گیا۔
ان اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے آنے والے سامان میں واضح کمی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق رواں برس جب سول اور عسکری قیادت نے ملک کی معاشی صورتحال بہتر بنانے کیلئے اقدامات شروع کیے تھے۔ اس وقت مختلف اداروں کی رپورٹس کی روشنی میں اسمگلنگ کو سب سے بڑا ناسور قرار دے کر اس کے خلاف ملک گیر بلاامتیاز کریک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ملک میں اسمگلنگ کے تین بڑے ذریعے سامنے آئے۔ جن میں زمینی راستے سے ایران اور افغانستان سے ہونے والی سامان کی اسمگلنگ کے علاوہ ایئر پورٹس سے آنے والے غیر قانونی سامان کے ساتھ افغان ٹرانزٹ کی آڑ میں بیرونی دنیا سے آنے والے اربوں روپے کے سامان کی پاکستانی مارکیٹوں میں سپلائی شامل ہے۔ ان رپورٹوں کی روشنی میں جب ڈیٹا کی چھان بین کی گئی تو انکشاف ہوا کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں افغان ٹرانزٹ کے سامان میں 3 گنا اضافہ ہوا تھا۔ یعنی پہلے سالانہ 2 ارب ڈالر کا سامان پاکستانی بندرگاہوں سے افغانستان کیلئے لایا جاتا تھا۔ تاہم اب یہ مالیت 6 ارب ہوچکی تھی۔ جس کا واضح مطلب تھا کہ پاکستانی مارکیٹوں میں سالانہ 4 سے 5 ارب مالیت کا سامان غیر قانونی سپلائی کرکے زر مبادلہ حوالہ ہنڈی سے بیرون ملک منتقل کیا جا رہا تھا۔
مقتدرہ اداروں کی رپوٹس کے تناظر میں وفاقی حکومت کی جانب سے ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کو مراسلہ ارسال کیا گیا تھا۔ جس میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان سے افغان ٹرانزٹ کے ذریعے بیرونی دنیا سے افغانستان کو درآمد ہونے والے سامان کے حجم میں ایک برس کے دوران حیرت انگیز طور پر 2 ارب ڈالرز سے زائد کا اضافہ ہوا۔ جو 5 ارب ڈالرز سے بڑھ کر 7 ارب ڈالرز سے زیادہ ہوچکا ہے۔ اس میں ایسی پرتعیش اشیا مثلا الیکٹرانک آئٹم، برانڈڈ سوٹ، جوتے، گھڑیاں، پرفیوم،کاسمیٹکس، بیگز اور دیگر ایسا سامان شامل ہے، جس کی افغانستان میں زیادہ کھپت نہیں اور اندیشہ ہے کہ یہ سامان راستے میں چوری ہوکر یا واپس اسمگل ہوکر مقامی مارکیٹوں میں ہی سپلائی ہوتا رہا ہے۔