امت رپورٹ :
آخرکار وہ گھڑی آگئی، تحریک انصاف کے نظریاتی رہنما اور کارکنان جس کا انتظار کر رہے تھے۔ آئندہ ایک دو روز میں جو ممکنہ پیش رفت ہونے جارہی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود کو سنی اتحاد کونسل کے حوالے کرکے تحریک انصاف نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی ہے۔ واضح رہے کہ پیر کے روز پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما بیرسٹر گوہر نے سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا اور مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں آزاد امیدواروں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔
تحریک انصاف کے 35 سے زائد دیرینہ اور نظریاتی عہدیداران، جن میں چند بانی رہنما شامل ہیں، شدت سے اس موقع کا انتظار کررہے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ ان نظریاتی رہنماؤں اور عہدیداران نے اس دعوے کے ساتھ الیکشن کمیشن پاکستان اور سپریم کورٹ جانے کی تیاری مکمل کر لی ہے کہ پی ٹی آئی کے اصل وارث اب وہ ہیں۔ چنانچہ پارٹی اور پارٹی کے دفاتر سمیت تمام وسائل ان کے حوالے کیے جائیں۔ کیونکہ فریق دوئم دوسری پارٹی میں شامل ہو چکا ہے۔
یاد رہے کہ جب سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کے کیس کی سماعت ہورہی تھی تو پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے عدالت نے پوچھا تھا کہ کیا درخواست گزار اکبر ایس بابر پارٹی کے بانی ممبر ہیں، تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا تھا۔ لیکن ساتھ ہی کہا تھا کہ ہم نے انہیں پارٹی سے نکال دیا تھا۔ جس پر عدالت نے استفسار کیا تھا کہ کیا اکبر ایس بابر نے کوئی دوسری پارٹی جوائن کی؟ حامد خان کا جواب نفی میں تھا۔
عدالت نے یہ سوال اس لیے پوچھا تھا کہ قانون کے مطابق جونہی کوئی فرد دوسری پارٹی میں شامل ہوتا ہے تو اس کی پرانی پارٹی رکنیت خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔ یوں بیرسٹر گوہر سمیت تمام لوگوں کی پی ٹی آئی رکنیت خود بخود ختم ہو چکی ہے۔ اب یہ سب عہدیداران اور ان کے منتخب ارکان سنی اتحاد کونسل کے کہلائیں گے۔ تحریک انصاف سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں رہا۔ جیسا کہ پاک سرزمین پارٹی کے ایم کیو ایم میں شامل ہونے کے بعد اب مصطفیٰ کمال اور ان کے دیگر تمام ساتھی ایم کیو ایم پاکستان کے رکن ہیں۔
پی ٹی آئی یوں بھی جال میں پھنس چکی ہے کہ اس نے اپنے بلے کے انتخابی نشان کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جو نظرثانی کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔ اس میں بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی چیئرمین کے طور پر پیش ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی پارٹی چونکہ اب سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو چکی ہے۔
ذرائع کے مطابق اکبر ایس بابر سمیت دیگر نظریاتی رہنما سپریم کورٹ میں یہ درخواست دائر کرنے جارہے ہیں کہ یہ لوگ سنی اتحاد کونسل کا حصہ بن چکے۔ چنانچہ پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلے کے حصول کے لیے نظرثانی کی درخواست دائر نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ درخواست خارج کی جائے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ سے استدعا کی جائے گی کہ ان سے پی ٹی آئی کے دفاتر خالی کرائے جائیں اور پی ٹی آئی کے نام سے چلائے جانے والے تمام بینک اکاؤنٹس بھی واپس لیے جائیں۔ ذرائع کے بقول یہ استدعا منظور ہونے کی صورت میں نظریاتی رہنماؤں نے اگلے مرحلے میں پی ٹی آئی کے بینک اکاؤنٹس کا آڈٹ اور فرانزک کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاکہ مالی گھپلوں کا پتہ چلایا جا سکے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اس لیے کی ہے کہ وہ اپنے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو پارٹی کی شناخت دے کر اقلیتی اور خواتین کی مخصوص نشستیں حاصل کر سکے۔ لیکن پارٹی داؤ پر لگانے کے باوجود ان کا یہ خواب بھی پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ کیونکہ جس پارٹی، سنی اتحاد کونسل میں پی ٹی آئی نے شمولیت اختیار کی ہے۔ اس کا سربراہ حامد رضا خود اپنی پارٹی کے بجائے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر آزاد حیثیت سے فیصل آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوا ہے۔ اگر وہ اپنی پارٹی کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑتے تو مخصوص سیٹوں کے لیے پہلے سے الیکشن کمیشن میں فہرست جمع کرائی ہوتی۔
الیکشن ایکٹ دو ہزار سترہ کے مطابق انتخابات کے بعد اب یہ فہرست الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کرائی جا سکتی۔ یوں پارٹی بدل لینے کے بعد بھی سابقہ تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں ملنا مشکل ہے۔ ذرائع کے مطابق نظریاتی رہنماؤں کی طرف سے پی ٹی آئی کے دفاتر اور بینک اکاؤنٹس کا معاملہ سپریم کورٹ کے علاوہ الیکشن کمیشن پاکستان میں بھی اٹھایا جائے گا کہ یہ لوگ سنی اتحاد کونسل میں ضم ہو چکے ہیں تو پھر پی ٹی آئی کے دفاتر اور اکاؤنٹس کیوں چلا رہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جائے گا کہ پی ٹی آئی کے دفاتر کا کنٹرول انہیں دے کر انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا اختیار بھی دیا جائے۔
ذرائع کے بقول ان درخواستوں کو دائر کرنے کے لیے امیدواروں کی کامیابی سے متعلق الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیش کا انتظار کیا جارہا ہے۔ یعنی اگلے ایک دو روز میں یہ پیش رفت ہو جائے گی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی 180 سیٹوں کا دعویٰ کرنے والی پی ٹی آئی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے بعد اپنے حمایت یافتہ محض 50 آزاد امیدواروں کے حلف نامے الیکشن کمیشن پاکستان میں جمع کرائے ہیں۔ یعنی یہ اس سے بھی قریباً نصف تعداد ہے جو الیکشن پاکستان کے حوالے سے 92 بیان کی جارہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ باقی 42 ارکان کہاں گئے؟ اگرچہ ان میں سے اب تک دو اڑ کر نون لیگ کی چھتری پر بیٹھ چکے ہیں۔ پھر بھی باقی 40 کے آگے سوالیہ نشان ہے۔
اس کے دو ہی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ باقی 40 کے قریب منتخب ارکان پی ٹی آئی کے کنٹرول میں نہیں اور انہوں نے سنی اتحاد کونسل کا لباس پہننے سے انکار کر دیا ہے اور اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں، یا پھر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کی اصل تعداد ہی 50 ہے۔ اس کے باوجود ڈھٹائی کے ساتھ 180 سیٹوں پر جیتنے کا مضحکہ خیز دعویٰ کیا جا رہا ہے۔